Saghar Siddique Stories | Saghar Siddique Novals | stories |

 ساغر صدیقی : ایک تعارف



               فقیہہِ شہر نے تُہمت لگائی ساغر پر

             یہ شخص درد کی دولت کو عام کرتا ہے


ساغرِ صدیقی سے میرا تعارف بہت پرانا ہے یعنی انٹر سے ہی اس کے ساتھ گہرا تعلق ہے میرا ایک خواب تھا کہ بی ایس اردو میں ساغرِ صدیقی پر اپنا مقالہ لکھو لیکن دوستوں یہ خواب پورا ہی نہ ہوا کیونکہ مجھے جواب ملا کہ ساغرِ صدیقی پر بہت کام ہو چکا ہے دوستوں میں آپ کو ساغر صدیقی کا تعارف چند سطروں میں کروا دیتا ہوں 

   { ” ساغرِ صدیقی کا حلیہ “}

        بال لمبے لمبے ، آنکھیں خوشی کی منتظر ،

     دماغ خیالات کا مجموعہ، ہاتھ قلم، دل غم زدہ،


 { ” پیدائش “}


ساغر صدیقی ۱۴ اگست ۱۹۲۸ ء میں انبالہ میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام محمد اختر تھا ایک انٹرویو میں ساغر صدیقی سے ان کے خاندان کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کچھ اس طرح جواب دیا

       ” میری ماں دلی کی تھی، باپ پٹیالے کا، پیدا امرتسر میں ہوا، زندگی لاہور میں گزاری! میں بھی عجیب چوں چوں کا مربّہ ہوں“

                             { ” بچپن “﴾

ساغر صدیقی اپنے بچپن کے حالات و واقعات کو کچھ طرح بیان کرتے ہیں

میری زندگی زنداں کی ایک کڑی ہے۔ ۱۹۲۸ء کے کسی ماہ میں پیدا ہُوا ہوں۔گھٹنوں کے بل چلنے کا زمانہ سہارنپور اور انبالہ کی آغوش میں گزرا۔ انبالہ اردو اور پنجابی بولنے والے علاقے کا سنگم ہے۔ ماں کی مامتا، باپ کی شفقت، کہاں اور کیسے پیدا ہُوا ہوں؟ یہ میرے لئے ”کسی مقدس سرائے کے غلیظ باڑھے میں“ کے سوا کچھ بھی نہیں ’یا‘ علی بابا چالیس چور ’کے پرسرار غار کی کہانی ہے۔ میں نے دنیا میں خداوندِ رحیم و کریم سے بہن بھائی کا عطیہ بھی نہیں پایا۔ یہ معلوم نہیں خدا کو اس تنہائی سے یگانہ بنانا مقصود تھا یا بیگانہ؟ بہرحال شاید میری تسکین قلبی کے لیے کسی کا نام بھائی رکھ دیا ہو۔ اسی طرح ایک وجود کا تذکرہ میرے بارے میں لکھنے والوں نے کیا ہے جو سراسر غلط ہے۔ دنیا کی چھ سمتوں پر نظر رکھنے والے صاحب فراست لاہور کی سڑکوں پر مجھے جب چاہیں ٹوٹا ہُوا بازو، کالی کملی میں چھپائے، احساس کے اُلٹے پاؤں سے چلتا پھرتا دیکھ سکتے ہیں۔ اگر کوئی بھائی بہن ہوتا تو شاید یہ حال نہ ہوتا۔ میں نے لوگوں سے اپنا نام محمد اختر سُنا۔ البتہ ایک پرشکوہ ماضی کی سرسراہٹ میں نے اپنے پاؤں کے نیچے محسوس کی ہے۔

                         

                            { ” تعلیم “﴾

ساغرِ صدیقی ایک انٹرویو میں اپنی بتدائی تعلیم کے حوالے سے بتاتے ہیں

میں نے اردو اپنے گھر میں پڑھی۔ ایک چالیس پچاس سالہ بزرگ جن کا نام حبیب حسن تھا، بچوں کی تربیت و تعلیم کا بہت ذوق رکھتے تھے۔ یہیں مجھ میں شاعری کا شوق پیدا ہوا۔ میری عمر سات یا آٹھ سال کی ہوگی کہ میں اردو میں اتنی مہارت حاصل کر چکا تھا کہ اکثر خط لکھوانے والے اپنی گذارشات کو میرے انداز بیان میں سن کر داد و تحسین سے نوازتے تھے۔ میں نے بچپن کا دور بھی غربت میں صبر و شکر سے گزارا ہے۔ جو کچھ ملتا اس پر بخوشی قناعت کرتا اس وقت کے تمام اردو روزناموں زمیندار، احسان، انقلاب کا مطالعہ میرا شغل تھا۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ شاید ہی میں نے آج تک اردو کا کوئی لفظ غلط پڑھا یا لکھا ہو۔ میں نے شروع میں ناصر حجازی تخلص رکھا، تقریباً دو ماہ بعد مجھے یہ تخلص واضح دکھائی نہ دیا۔ تب میں نے اپنا تخلص ساغر صدیقی پسند کیا، جواب تک موجود ہے۔ دس بارہ برس کی عمر میں، مَیں اپنے استاد حبیب حسن کے ساتھ امرتسر میں رہا کرتا تھا۔ میں چھوٹی عمر میں بھی بیس بائیس سال کا سنجیدہ نوجوان معلوم ہوتا تھا، میری عمر سولہ سال کی تھی جب ۱۹۴۴ ء میں امرتسر کی جامعہ السنہ شرقیہ ہال بازار میں جو کہ علوم شرقیہ کی بہترین درس گاہ تھی، ماہانہ طرحی مشاعرے ہوتے تھے، ان میں شرکت کرنا میرے لئے سب سے بڑی خوشی کی بات تھی

 { ” پہلا شعر  “}

ساغرِ صدیقی نے شعر  ۱۴ برس کے عرصے میں ہی کہنے لگے تھے اور اپنے بے تکلف دوستوں کی محفل میں سناتے بھی تھے۔ شروع میں تخلص ناصر مجازی تھا لیکن جلد ہی اسے چھوڑ کر ساغر صدیقی ہو گئے۔ان کا پہلا کچھ یوں تھا

اس کشتی حیات کے لنگر کو توڑ دو

تہذیب نو کے شیشہ و ساغر کو توڑ دو

{ ” ادبی سفر “)

تقسیم ہند کے بعد ساغر صدیقی لاہور آ گے اور پھر ہمیشہ اسی شہر میں رہے۔ لاہور آ کر آپ نے پاکستان کا قومی ترانہ لکھنے کے مقابلے میں بھی شرکت کی۔ بلکہ ساغر کی خواہش تھی کہ یہ ترانہ فلمایا جائے اور سینما میں بھی دکھایا جائے۔ ساغر نے فدا شاہ جہان پوری اور نعیم شاہ کے ساتھ مل کر ترانہ لکھا اور فلمایا اور ریجنٹ سینما میں یہ سکرین پر دکھایا گیا۔ ساغر نے فلم ”انقلاب کشمیر“ بھی بنائی۔ اس کے علاوہ ساغر ہفت روزہ ”تصویر“ کے اڈیٹر رہے اور پھر اس کے بند ہونے پر ہفت روزہ ”فلمی اخبار“ کا ڈیکلیریشن منظور کروایا۔

  { ” ساغرِ صدیقی اور نشہ }

ڈاکٹر مالک رام لکھتے

۱۹۶۲ ء کی بات ہے کہ وہ ایک ادبی ماہنامے کے دفتر میں بیٹھے تھے۔ انہوں نے سردرد اور اضمحلال کی شکایت کی۔ پاس ہی ایک اور شاعر دوست بھی بیٹھے تھے۔ انہوں نے تعلق خاطر کا اظہار کیا اور خاص ہمدردی سے انہیں مارفیا کا ٹیکہ لگا دیا۔سردرد اور اضمحلال تو دور ہو گیا لیکن اس معمولی واقعے نے ان کے جسم کے اندر نشّہ بازی کے تناور درخت کا بیج بو دیا۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ خود ساغر کے دوستوں میں سے بیشتر نے ان کے ساتھ‍ ظلم کیا۔ یہ لوگ انہیں چرس کی پڑیا اور مارفیا کے ٹیکے کی شیشیاں دیتے اور ان سے غزلیں اور گیت لے جاتے، اور اپنے نام سے پڑھتے اور چھپواتے اور بحیثیت شاعر اور گیت کار اپنی شہرت میں اضافہ کرتے۔ اس کے بعد اس نے رسائل اور جرائد کے دفتر اور فلموں کے اسٹوڈیو میں آنا جانا چھوڑ دیا اس میں بھی کوئی مبالغہ نہیں کہ اداروں کے کرتا دھرتا اس کے کام کی اجرت کے دس روپے بھی اس وقت ادا نہیں کرتے تھے، جب وہ ان کے در دولت کی چوکھٹ پر دس سجدے نہ کرے۔ اس نے ساغر کے مزاج کی تلخی اور دنیا بیزاری اور ہر وقت ”بے خود“ رہنے کی خواہش میں اضافہ کیا اور وہ بالکل آوارہ ہو گیا۔ نوبت بایں جا رسید کہ کہ کبھی وہ ننگ دھڑنگ ایک میلی کچیلی چادر اوڑھے اور کبھی چیتھڑوں میں ملبوس، بال بکھرائے ننگے پانو۔ منہ میں بیڑی یا سگریٹ لیے سڑکوں پر پھرتا رہتا اور رات کو نشے میں دھت مدہوش کہیں کسی سڑک کے کنارے کسی دکان کے تھڑے یا تخت کے اوپر یا نیچے پڑا رہتا

   { ” ساغرِ صدیقی اور ایوب خان }

پاکستان کے سابق صدر ایوب خان ایک دفعہ ہندوستان کے دورے پر آئے، اس موقع پر ایک نغمہ گایا گیا جو انکے دل کے تاروں کو چھو گیا، ایوب خان کو یہ نغمہ اس قدر اچھا لگا کہ اس نغمہ نگار شاعر سے ملنے کا ارادہ ظاہر کر دیا، جب صدر ایوب خان کو شاعر کے متعلق یہ بتایا گیا کہ اس شاعر کا تعلق پاکستان سے ہے تو وہ حیران رہ گئے۔ پاکستان واپس جاتے ہی صدر ایوب نے اس شاعر سے ملنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے حکم دیا کہ اسے تلاش کیا جائے اور میرے سامنے لایا جائے، صدر کا حکم سنتے ہی ماتحتوں نے کوششیں شروع کر دیں ۔ ساغر صدیقی داتا دربار کے باہر کمبل میں لپٹے ہوئے زمانے کی ستم ظریفی پر شکر ادا کر رہے تھے، لاکھ منتوں سماجتوں کے باوجود شاعر نے ایوب خان کے پاس جانے سے انکار کر دیا، آخر کار جب بے حد اصرار بڑھ گیا اور ماتحت زبردستی پر اتر آئے تو اس فقیر نے پاس پڑی ہوئی ایک سگریٹ کی ایک خالی ڈبیا اٹھائی، اس میں سے ایلو مینیم کی فویل نکالی (جسے عام زبان میں کلی یا پنی بھی کہتے ہیں ) دکاندار سے نہایت مؤدبانہ انداز میں قلم مانگا اور اس فویل پر 2 سطریں تحریر کرتے ہوئے کہا کہ جاؤ یہ صدر صاحب کو جا کر دے دو۔

 عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی 

اس عہد کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے 

   ( تصانیف )

ان کی تصانیف میں 'زہر آرزو'، 'غم بہار'، شب آگہی'، 'تیشۂ دل'، 'لوح جنوں'، 'سبز گنبد'، 'مقتل گل'۔ ''کلیات ساغر '' شامل ہیں

ساغر کا ایک اور ایسا کام ہے جو شاید اس کا نام زندہ رکھنے کے لیے کافی ہے۔ معروف کلام ”دما دم مست قلندر“ ساغر صدیقی کی ہی تخلیق ہے۔

  { ” کلام کی خصوصیات }

 تصور محبوب ، ماضی پرستی، ہجر و فراق ، جذبہ حب الوطنی، سیاسی رنگ ، قنوطیت و ناامید

  ( ساغرِ اور پاگل خانہ )

ساغر اپنے نشے کی وجہ سے جیل میں بھی تین ماہ رہا اس کے دوست چاہتے تھے کہ اسے جیل سے پاگل خانے بھیج دیا جائے مگر مجسٹریٹ کے سامنے ساغر کے انکار پر ایسا نہ ہوسکا۔

 ( آخری وقت )

جنوری1974ء میں اس پر فالج کا حملہ ہوا اس کا علاج بھی چرس اور مارفیا سے کیا گیا۔ فالج سے تو بہت حد تک نجات مل گئی، لیکن اس سے دایاں ہاتھ‍ ہمیشہ کے لیے بے کار ہو گیا۔ پھر کچھ‍ دن بعد منہ سے خون آنے لگا۔ اور یہ آخر تک دوسرے تیسرے جاری رہا۔ ان دنوں خوراک برائے نام تھی۔ جسم سوکھ‍ کر ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ گیا تھا۔ سب کو معلوم تھا کہ اب وہ دن دور نہیں جب وہ کسی سے چونی نہیں مانگے گا۔ساغر صدیقی کے آخری ایام داتا دربار کے سامنے پائلٹ ہوٹل کے فٹ پاتھ پر گذرے۔اور ان کی وفات بھی اسی فٹ پاتھ پر ہوئی۔

ساغر کی تاریخَ وفات کے متعلق میں نے کچھ کتابوں میں 18 جولائی پڑھا ہے جبکہ وکیپیڈیا پہ 19 جولائی لکھا ہوا ہے۔  اگر کسی علم میں درست تاریخ ہو تو مطلع فرمائیں۔ بہرحال جولائی 1974ءصبح کے وقت اس کی لاش سڑک کے کنارے ملی اور دوستوں نے لے جا کر اسے میانی صاحب کے قبرستان میں دفن کر دیا۔

انا للہ وانا الیہ راجعون

  ( کتبہ )

اسے کس نے کفن پہنایا اور کون لوگ دفن کرنے قبرستان گئے۔ یہ شکستِ ساغر کی آخری گمشدہ کڑی ہے اور جس طرح کسی کو یہ معلوم نہیں کہ اُس نے کس ماں کی گود میں آنکھ کھولی؟ کس باپ کی شفقت سے محروم ہوا؟ اور کس بھائی نے اُسے پیار سے پکارا اس طرح یہ بھی معلوم نہیں کہ اُسے قبر میں اُتارنے والے کون تھے؟ اُس کی آخری آرام گاہ پر لگا ہوا ایک کتبہ پڑھ رہا ہوں۔ جس پر یہ الفاظ کنندہ ہیں


’ عاشق کو سجدہ کرنے کی مستی میں اس بات سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ کہ اُس کی پگڑی کہاں گری ہے اور اُس کا سر محبوب کے قدموں پر کس انداز سے گرتا ہے۔ ‘

  ( آخری الفاظ )

ساغر صدیقی کہا کرتے تھے کہ "لاہور میں بہت قیمتی خزانے دفن ہیں مگر انہیں آسانی سے تلاش نہیں کیا سکتا ۔" 

  ( حرفِ آخر )

ساغر کی قبر پر کچھ عرصہ قبل حاضری دی۔ آج قبر کی حالت بہت بدل چکی ہے۔ اب تو یہاں میلہ بھی لگتا ہے۔ کیسا عجب ہے یہ سماج کہ اپنی زندگی میں سڑکوں پر ننگے پیر پھرنا والا یہ درویش جو اکثر خالی پیٹ سوتا تھا آج اس کی قبر پر لنگر تقسیم ہوتا ہے۔ ناجانے اس کے مہربان دوست اس کی زندگی میں کہاں تھے۔ انہوں نے کیوں ساغر کو نشے سے نہ بچایا۔ ساغر کے قتل میں وہ بھی برابر کے شریک ہیں۔ میں کافی دیر ساغر کی قبر سے ٹیک لگائے بیٹھا رہا۔ساغر 1974 ء میں مرا مگر ہم تو اب تلک نہ بدلے ہم نے کئی ساغر اسی طرح مار دیے۔ آج اس کی قبر پر ٹائلیں ہیں مگر اس کا ساغر کو کیا فیض وہ تو تمام عمر فٹ پاتھ پر رُلتا رہا۔ یہ سچ ہے کہ ساغر کا اپنی بربادی میں خود بھی بڑا ہاتھ ہے مگر اس کو اس حال تک پہچانے والے اس کے گرد پائے جانے والے درندے تھے، جنہوں نے دوستی جیسے مقدس رشتے کو داغ دار کیا۔ جنہوں نے ساغر کے کلام سے کمائے مال سے تا عمر عیش کی اور وہ آج بھی اس کی قبر پر فاتحہ تک پڑھنے کے روادار نہیں

زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے

جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں





تحریر : فراز احمد


Comments

Popular posts from this blog

New Urdu Sad poetry | New English Poetry 2022 | New Love Poetry

Sad Poetry in Urdu 2 Lines - Two Line Shayari

Insurance company Health American