Posts

Showing posts from March, 2022

New Urdu Sad poetry | New English Poetry 2022 | New Love Poetry

Image
  میری دعا ہے کہ کسی معصوم  انسان کے خواب کسی  کم ظرف انسان کے محتاج نہ ہوں  -Roman Language-  Meri Duaa Ke Kisi Masoom Insan Ke Khwab Kisi Kam Zaraf Insan Ke Muhtaj N a Ho  -English Language- I pray for an innocent person   Dreams do not need a lesser human being -Turkish Language- masum biri için dua ediyorum   Rüyalar daha az insana ihtiyaç duymaz -Marathi Language- मी निर्दोष व्यक्तीसाठी प्रार्थना करतो   स्वप्नांना कमी माणसाची गरज नसते -Pashto Language- زه د یو بې ګناه سړي لپاره دعا کوم   خوبونه کم انسان ته اړتیا نلري -Arabic Language- أصلي من أجل شخص بريء   الأحلام لا تحتاج إلى إنسان أهون -Sindhi Language- مان هڪ معصوم ماڻهوءَ لاءِ دعاگو آهيان   خوابن کي ڪنهن کان گهٽ انسان جي ضرورت ناهي -Hindi Language- मैं एक निर्दोष व्यक्ति के लिए प्रार्थना करता हूँ   सपनों को कम इंसान की जरूरत नहीं -------------- ٹھہر ٹھہر کے خدارا کلام کیجئے ناں....!!!  ہمارے ڈوبتے دل کا بھی کچھ خیال کیجئےناں 🍂 سنا ہے آپ کی آنکھیں ہیں بادشاہ آنکھیں  نظر اٹھائیے ہم کو غلام کیجئے ناں....!!!🍂 -English Language-

New Novels | Stories | 270+New Latest Novels in Urdu/Hindi

Image
 محبت کی بساط پر قسط نمبر 3 آیت کو ہوش آیا تو کمرہ خالی تھا۔ اس کے ساتھ نرس تھی جو اس کا بی پی اور دوائیں وغیرہ چیک کر رہی تھی۔ سہہ پہر کا وقت تھا۔ شاہ میر باہر انتظار گاہ میں بیٹھا کال پر اپنے پی اے کے ساتھ اپنی میٹنگز ری شیڈول کر رہا تھا۔ نرس نے اسے اٹھ کر بیٹھنے میں مدد دی۔ وہ اب بہتر محسوس کر رہی تھی۔ بی پی بھی کافی حد تک بہتر تھا۔ سوچوں کا محور ایک بار پھر شہزاد کی ذات تھی۔ اچانک اس کی زندگی میں کسی لڑکی کا آنا اور اس کی جگہ لے لینا کیا آیت فرید اتنی ہی بے مول تھی۔ آنکھوں سے آنسو لڑی کی صورت بہہ رہے تھے۔ ڈاکٹر نے ضروری چیک اپ کے بعد اسے ڈسچارج کردیا تھا لیکن شاہ میر کو تاکید کی تھی کہ وہ اسے کسی ماہر نفسیات کو ضرور دکھائے۔ اس وقت اسے ایک اچھے دوست اور سائیکاٹرسٹ کی اشد ضرورت تھی۔  آیت بی جان اور عمیر کے ساتھ گھر آچکی تھی لیکن یہ گھر، یہ تو اس کا گھر نہیں تھا۔ اس کا گھر تو وہ تھا جسے اس نے چاہت اور مان سے بنایا تھا۔ محبت سے سینچا تھا اور وہ اسی گھر سے بے دخل کردی گئی تھی۔ وہ بظاہر نارمل تھی لیکن اندر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی۔ چار سال کسی فلم کی طرح اس کی نظروں کے سامنے چل رہے تھے۔ ک

New Hindi Novels | 142+New Hindi Romantic Novels 2022 | Urdu Novels For Kids 2022

Image
( محبت کی بساط پر ) قسط نمبر 2 ) ڈاکٹر نے اسے سکون آور ادویات دی تھیں جن سے وہ غنودگی میں چلی گئی تھی لیکن مسلسل اس کی زباں پر شہزاد کا نام تھا۔ وہ نام جو چھ سالوں سے اس کی زباں پر جاری تھا۔ چند گھنٹوں میں اجنبی بن چکا تھا لیکن وہ اجنبی کیسے ہوسکتا ہے وہ تو روم روم میں سمایا ہوا ہے۔ وہ، وہ مجھ سے جدا کیسے ہوسکتا ہے۔ اس کی آنکھوں کے گوشے بھیگے ہوئے تھے۔ ذہن بار بار وہی لفظ دہرا رہا تھا۔ اس ایک لفظ ”طلاق“ کی تکرار نے نیم غنودگی کی کیفیت میں بھی اسے سر تکیے پر پٹخنے پر مجبور کردیا تھا۔ یہ کیسی چال چلی تھی وقت نے کہ بازی پلٹ کر رکھ دی تھی۔ وہ جو دو قالب اور یک جان تھے آج ساحل کے دو کنارے تھے۔   عمیر نے بے بسی سے اسے دیکھا اور باہر چلا آیا۔ اپنی چہیتی لاڈلی بہن کو اس حال میں دیکھنا اس کے لیے سوہان روح تھا۔ اسے لگ رہا تھا کہ کوئی تیز دھار آلے سے اس کے وجود کے ٹکڑے کر رہا ہے۔ اس نے نم ہوتی آنکھوں سے گلاس ڈور کے اس پار اس بے سدھ پڑے وجود کو دیکھا جس کی خاطر وہ بارہ سال کی عمر میں مرد بن گیا تھا۔ آیت کو کالج میں ایڈمیشن کروانے کے لیے ساتھ لے جاتے وقت اسے احساس ہوا تھا کہ بابا جان کے انتقال کے ب

New Hindi Stories 2022 | 145+New Urdu Stories | 322+Urdu Stories of Girls

Image
( محبت کی بساط پر )   قسط نمبر 1 اس نے نزاکت سے ساڑھی کا پلو درست کرتے ہوئے اشتہا انگیز کھانوں کی خوش بو سے مزین ڈائننگ ٹیبل پر آخری نظر ڈالی۔ ساری تیاریوں کا جائزہ لے کر وہ کچن میں آئی۔ آج اس نے اپنی محبوب ہستی کی پسند کی ساری ڈشز بنائی تھیں اور سارا دن لگا کر گھر کو بے حد خوب صورتی سے سجایا تھا۔ سارا گھر گلاب کی خوش بو سے مہک رہا تھا۔ آج ان کی شادی کی چوتھی سال گرہ تھی۔ اس نے فریج سے پائن ایپل کیک نکال کر ڈائننگ ٹیبل کے وسط میں رکھا۔ ایک نگاہ دیوار گیر گھڑیال پر ڈالی، نو بجنے میں پانچ منٹ تھے۔  وہ جلدی سے کمرے میں آئی اور قد آور آئینے میں اپنے سراپے پر نظر ڈال کر مسکرائی۔ بالوں میں سے کیچر نکال کر تھوڑے بال بائیں جانب گرالیے۔ ڈریسنگ ٹیبل سے سرخ لپ اسٹک اٹھا کر ٹچ اپ کیا اور ہاتھ میں نازک سا بریسلٹ پہنتی ہوئی بیڈ کی جانب بڑھی۔ شہزاد کے لیے منگوایا ہوا گفٹ اٹھا کر باہر چلی آئی۔ شہزاد کے آنے میں چند منٹ ہی تھے اور اس کے آنے سے قبل وہ تمام کام مکمل کرلینا چاہتی تھی۔   نہ جانے کیوں آج لب خود بخود مسکرا رہے تھے۔ یوں تو وہ ہر سال ہی اتنا اہتمام کرتی تھی لیکن نہ جانے آج کیا بات تھی کہ اس کا