New Hindi Stories 2022 | 145+New Urdu Stories | 322+Urdu Stories of Girls

( محبت کی بساط پر ) 
قسط نمبر 1



اس نے نزاکت سے ساڑھی کا پلو درست کرتے ہوئے اشتہا انگیز کھانوں کی خوش بو سے مزین ڈائننگ ٹیبل پر آخری نظر ڈالی۔ ساری تیاریوں کا جائزہ لے کر وہ کچن میں آئی۔ آج اس نے اپنی محبوب ہستی کی پسند کی ساری ڈشز بنائی تھیں اور سارا دن لگا کر گھر کو بے حد خوب صورتی سے سجایا تھا۔ سارا گھر گلاب کی خوش بو سے مہک رہا تھا۔ آج ان کی شادی کی چوتھی سال گرہ تھی۔ اس نے فریج سے پائن ایپل کیک نکال کر ڈائننگ ٹیبل کے وسط میں رکھا۔ ایک نگاہ دیوار گیر گھڑیال پر ڈالی، نو بجنے میں پانچ منٹ تھے۔ 
وہ جلدی سے کمرے میں آئی اور قد آور آئینے میں اپنے سراپے پر نظر ڈال کر مسکرائی۔ بالوں میں سے کیچر نکال کر تھوڑے بال بائیں جانب گرالیے۔ ڈریسنگ ٹیبل سے سرخ لپ اسٹک اٹھا کر ٹچ اپ کیا اور ہاتھ میں نازک سا بریسلٹ پہنتی ہوئی بیڈ کی جانب بڑھی۔ شہزاد کے لیے منگوایا ہوا گفٹ اٹھا کر باہر چلی آئی۔ شہزاد کے آنے میں چند منٹ ہی تھے اور اس کے آنے سے قبل وہ تمام کام مکمل کرلینا چاہتی تھی۔ 
 نہ جانے کیوں آج لب خود بخود مسکرا رہے تھے۔ یوں تو وہ ہر سال ہی اتنا اہتمام کرتی تھی لیکن نہ جانے آج کیا بات تھی کہ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ گھر کے کونے کونے میں اپنی محبت کا دیا روشن کردے۔ وہ چاہے رہے نہ رہے اس گھر میں اس کی محبت کا چراغ تاحیات روشن رہے۔ 
شہزاد سعید اور آیت فرید صرف ہم سفر ہی نہیں بلکہ بزنس پارٹنرز بھی تھے۔ شہزاد آیت کا ساتھ پا کر خود کو خوش قسمت ترین انسان تصور کرتے۔ ان کی محبت ہی نہیں ذہنی ہم آہنگی بھی قابل رشک تھی۔ آیت ایک ورکنگ ویمن ہونے کے ساتھ ساتھ سلیقہ مند بیوی بھی تھی۔ وہ چار سالوں سے ایک دوسرے کی معیت میں ایک خوش گوار اور مثالی زندگی بسر کر رہے تھے۔ صاحب اولاد نہ ہونے کے باوجود انہوں نے ایک دوسرے کی ذات کو اپنے وجود سے تکمیل بخشی تھی۔ وہ ہر چھوٹا بڑا دن یونہی سیلیبریٹ کرتے، ایک دوسرے کو سرپرائز اور تحائف دے کر زندگی کی کتاب میں خوشیاں رقم کرتے۔ 
آیت فرید کے لیے انتظار کی یہ گھڑیاں محال تھیں۔ اس کی نگاہیں کبھی دروازے کو تکتیں تو کبھی گھڑی کی ٹک ٹک کرتی سوئیوں کو۔ نو بج کر بارہ منٹ ہوچکے تھے۔ اس نے فون اٹھا کر بے چینی سے شہزاد کا نمبر ملایا۔ چند بیلز کے بعد نمبر بزی کردیا گیا تھا۔ 
”کیا وہ آج کا دن بھول گئے ہیں؟“ اس نے انگلی دانتوں تلے دباتے ہوئے سوچا۔ 
”آنے والے ہوں گے“، اس نے خود کو مطمئن کرتے ہوئے خود کلامی کی۔
چند پل مزید گزرے تھے اس نے بے چینی سے ٹھنڈے ہوتے کھانے اور دھیرے دھیرے اپنی زندگی سے پھسلتے ان خوب صورت پلوں کی طرح پگھلتے کیک کو دیکھا۔ اس نے جلدی سے کیک اٹھا کر فریج میں واپس رکھا۔ نہ جانے کیوں دل تھا کہ مضطرب ہوا جا رہا تھا۔ ہشاش بشاش چہرے پر پریشانی پہرہ ڈال چکی تھی۔ شہزاد نے ایسا تو پہلے کبھی نہیں کیا تھا۔ وہ تو اپنی پل پل کی خبر اسے دیتا تھا۔ 
”شہزاد آپ کہاں ہیں؟“ اس نے بڑبڑاتے ہوئے ایک بار پھر بے چینی سے نمبر ملا کر فون کان سے لگایا لیکن جواب موصول نہ ہونے پر مایوسی سے گھڑی کو دیکھا جو دس بجنے کا عندیہ دے رہی تھی۔ اس نے بالوں کو جوڑے میں لپیٹ کر کیچر لگایا اور کھانے کی ڈشز اٹھا کر کچن میں رکھیں اور واپس آکر ٹی وی کھول کے صوفے پر بیٹھ گئی۔ 
رات کے کسی پہر دروازہ کھلنے اور کسی کے بولنے اور ہنسنے  کی آواز سے اس کی آنکھ کھلی، اس نے ارد گرد دیکھا اور یاد کرنے کی کوشش کی۔ وہ شہزاد کا انتظار کرتے کرتے لاؤنج میں صوفے پر ہی سوگئی تھی۔ اس نے وقت دیکھا تو رات کے دو بج رہے تھے۔ اس سے قبل وہ چونکتی شہزاد لاونج میں داخل ہوتا دکھائی دیا۔ وہ تنہا نہیں تھا۔ رات کے اس پہر وہ کسی لڑکی کا ہاتھ تھامے گھر میں داخل ہورہا تھا۔ 
                              *****
”کیا تم اب بھی اس لڑکی کی تلاش میں ہو شاہ میر؟“ عمیر کے سوال پر اس کا پیپر ویٹ گھماتا ہاتھ لمحے بھر کے لیے تھما تھا، اس نے نگاہ اٹھا کر اسے دیکھا اور دھیرے سے اثبات میں سر ہلایا۔ اس کی لہو رنگ آنکھیں دیکھ کر عمیر  کو افسوس ہوا تھا۔ وہ یقیناً اپنی برداشت کی آخری حدوں پر تھا۔ 
آج ہی اسے جہانزیب رضوی کی ایڈورٹائزنگ ایجنسی سے پتا چلا تھا کہ شاہ میر نے  کسی لڑکی کی معلومات حاصل کرنے کے لیے ان سے رابطہ کیا تھا۔ ان کے شعبے میں یہ عام بات تھی لیکن اس عام بات کے پیچھے چھپی خاص وجہ سے عمیر بخوبی واقف تھا۔ گزشتہ چھ ماہ سے وہ دیوانوں کی طرح اس لڑکی کو تلاش کر رہا تھا۔ 
شاہ میر سلیمان شاہ ایک کام یاب شخص جس کی زندگی کے ہر ورق پر صرف فتح کا نشان تھا۔ وہ بازی پلٹنے کا ہنر جانتا تھا، اس لیے ہر بساط پر اسی کے نام کی جیت رقم ہوتی لیکن یہ بازی اس کے ہاتھ سے نکل چکی تھی۔ شاہ میر شاہ پہلی بار ہارا تھا اور ہارا بھی تو محبت کی بازی، کون کہہ سکتا تھا کہ یہ وہی شاہ میر ہے جو نازنینوں کو نظر بھر کر بھی نہیں دیکھتا تھا۔ آج ایک عام سی لڑکی پر دل ہار بیٹھا ہے۔ محبت نے ایسے چاروں خانے چت کیا ہے کہ کوئی دیوانہ معلوم ہوتا ہے۔ ایسا دیوانہ جو پچھلے کئی ماہ سے اس ماہ جبیں کی فقط ایک جھلک دیکھنے کو سارا جہاں کھنگال چکا تھا لیکن وہ اسے ہوش و خرد سے بیگانہ کرکے نہ جانے کہاں روپوش ہوگئی تھی۔ 
”نام جانتے ہو اس کا؟“ چند لمحوں کی خاموشی کے بعد عمیر نے وہیں سے گفتگو کا سلسلہ جوڑا۔ اس نے نفی میں سر ہلایا۔ 
”کوئی تصویر ہے؟“ اب کی بار بھی جواب وہی تھا۔ 
”کیسے تلاش کروگے؟“ 
”کرلوں گا، ابھی زور بازو پر اتنا یقین ہے مجھے“۔ عمیرنے تاسف سے اسے دیکھا۔ اسے یہ محبت کم اور کسی دیوانے کی بھڑک زیادہ معلوم ہوئی تھی۔ اس کے نزدیک یہ سرا سر پاگل پن تھا اور محبت میں روگ لینے والے لوگوں سے ویسے ہی اس کا دور دور تک کوئی واسطہ نہ تھا۔ 
”میں چاہتا ہوں تم کچھ عرصے کے لیے کام سے بریک لے لو۔ تمہیں پرسکون ہونے کی اشد ضرورت ہے“، عمیر کی بات پر وہ دھیرے سے مسکرایا تھا۔ 
”تمہیں کس وقت لگا یہ کہ میں اتنے کمزور اعصاب کا مالک ہوں؟“
”محبت اچھے اچھے سکندروں کو گداگر کردیتی ہے میری جان“، عمیر کی بات پر اس نے کھل کر قہقہہ لگایا تھا۔ 
”نازش ملنا چاہتی ہے تم سے“، اس کی مسکراہٹ لمحوں میں سمٹی تھی۔ 
”کس سلسلے میں؟“ اس نے بھنویں اچکائیں۔ 
”یہاں ہیروئیز پروڈیوسرز سے کیوں ملنے کی خواہش کرتی ہیں یہ میرے خیال میں مجھے کم از کم تمہیں بتانے کی ضرورت نہیں ہے“۔ اس نے دھیمے لہجے میں کہا شاید وہ اس کی جانب سے آنے والے رد عمل سے پہلے ہی واقف تھا۔ 
”ہمم! اس سے کہہ دو سات بجے تک ریڈی رہے۔ میرا ڈرائیور اسے پک کرلے گا، آج کا ڈنر میں اس کے ساتھ کروں گا“ غیر متوقع جواب پر اس نے حیرانی اور پریشانی کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ اسے گھورا۔ 
”ایسے کیا دیکھ رہے ہو جیسے تم میری گرل فرینڈ ہو اور تمہیں دھوکہ دے کر میں کسی اور کے ساتھ ڈیٹ پر جارہا ہوں“۔ 
”تم اتنی جلدی مجنوں کے گیٹ اپ سے باہر نکل آؤگے یہ دیکھ کر حیران ہوں میں۔ کہاں تو تمہیں سانس لینا دشوار لگ رہا تھا اس کے بغیر اور اب ڈنر کا پلان“۔ 
”بکواس بند کر تو بھی جانتا ہے اگلے پروجیکٹ کے لیے کچھ اہم بات کرنی ہے اس سے، تو چاہے تو کباب میں ہڈی بن سکتا ہے“۔ 
”نہیں نازش بی بی تمہیں ہی مبارک ہوں ہمارا تو امایہ سکندر کے ساتھ ڈنر اور پھر مووی دیکھنے کا ارادہ ہے“، اس نے ایک آنکھ شرارت سے بند کرتے ہوئے کہا۔ 
”میں فون کرتا ہوں بی جان کو“ شاہ میر نے فون اٹھاتے ہوئے کہا۔ 
”نہ کر یار انہیں پھر اپنی بھانجی یاد آجائے گی“۔ شاہ میر اس کے منہ بنانے پر ہنسا تھا۔ عمیر نے اسے مسکراتا دیکھ کر سکون کا سانس لیا تھا۔ ابھی کے لیے اتنا ہی کافی تھا۔ 
                          *****
آیت نے اٹھ کر معاملہ سمجھنے کی کوشش کی اور شکایت بھری نظروں سے اسے دیکھا جو اسے جان بوجھ کر نظر انداز کرگیا۔ 
”آیت اس سے ملو یہ یمنی ہے، میری خالہ کی بیٹی ایک ماہ قبل ہی لاہور سے آئی ہے“۔ اس نے شہزاد کے ساتھ کھڑی دھان پان سی لیکن بے حد حسین اور ماڈرن لڑکی کو دیکھا جس کا ہاتھ شہزاد کے ہاتھ میں تھا۔ آیت اس بے تکلفی پر ششدر سی کھڑی رہ گئی۔ 
”اور یمنی یہ آیت ہیں“، اس نے آیت کا سرسری سا تعارف کروایا لیکن آیت کی توجہ اور نگاہوں کا مرکز ابھی بھی ان کا ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے یوں بے تکلفی سے کھڑا ہونا تھا۔ 
”آپ کھانا کھائیں گے؟“ آیت نے بمشکل نظر انداز کرتے ہوئے شہزاد کی جانب دیکھا۔ شہزاد کی آنکھوں میں چمکتے جگنو اور یمنی کو تکتی نگاہیں اسے ایک ان جانے سے خوف میں مبتلا کرگئیں۔ 
”نہیں ہم کھانا کھا کر آئے ہیں۔ تم بیٹھو مجھے تم سے کچھ باتیں کرنی ہیں۔ میں ذرا یمنی کا سامان اندر لے آؤں“۔ 
وہ جیسے ہی باہر گیا آیت کو کسی انہونی کے خوف نے جکڑ لیا۔ وہ بے دم سی صوفے پر گرنے کے انداز میں بیٹھی۔ جب کہ اس کے ساتھ آئی وہ لڑکی اب مکمل استحقاق سے گھر کی ہر شے کو دیکھ رہی تھی۔ وہ جانے ان جانے میں اپنا اور اس لڑکی کا تقابل کرنے لگی۔ اس کے لمبےگھنگریالے بھورے بالوں کو جو پونی ٹیل میں قید تھے اور کچھ لٹیں پونی سے نکل کر رخسار اور گردن کو چھو رہی تھیں دیکھتے ہوئے اس نے اپنے چھوٹے اسٹیپ کٹنگ میں کٹے سیاہ بالوں پر ہاتھ پھیرا۔ وہ جنیز ٹی شرٹ میں ملبوس تھی۔ اس کی ہیل کی ٹک ٹک پورے گھر میں گونج رہی تھی۔ شہزاد سامان لے کر اندر آیا تو اس کے ہاتھ میں تین سوٹ کیس اور ایک ہینڈ بیگ تھا۔ اس کے سامان سے ایسا نہیں لگ رہا تھا کہ یہ مہمان ہے۔ نہ ہی شہزاد نے اس کا سامان گیسٹ روم میں رکھا تھا۔ 
”اگر مہمان نہیں ہے تو کون ہے؟“ دماغ نے جو جواب دیا دل نے اس پر سچ کی مہر ثبت کرنے سے انکار کردیا۔ 
شہزاد آکر صوفے پر بیٹھا تو وہ پانی کا گلاس لے آئی۔ بالوں کو کان پیچھے کرتے ہوئے وہیں صوفے پر بیٹھ گئی۔ 
”تم اگر سونا چاہتی ہو تو ہم صبح بات کرلیں گے“، اس نے پانی کا گلاس لبوں سے لگاتے ہوئے آیت کے سراپے سے نظریں چرائی تھیں۔ 
”نہیں کہو میں سن رہی ہوں“، اس نے پلو کی جھالر کو ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا۔ 
”میں نے اور یمنی نے شادی کرلی ہے چار دن پہلے، سب گھروالوں کے سامنے اور ان کی رضا مندی سے“، بنا کسی تمہید کے وہ سپاٹ لہجے میں کہتا ہوا وہ آیت کا وجود چھلنی کر چکا تھا۔ اپنی بات کہہ کر وہ رکا تھا اس کے تاثرات جانچنے کے لیے۔ وہ نگاہیں جھکائے خاموش بیٹھی رہی۔ دل پشیمان تھا۔ 
”آیت“، اس نے بے تاثر خالی خالی نگاہوں سے اسے دیکھا۔ آج اس کے منہ سے اپنا نام اجنبی سا لگا تھا۔ تو کیا وہ اس کا نام پکارنے کا حق بھی کھو چکا تھا۔ دل کے سوال کو نظر انداز کرتے ہوئے وہ گویا ہوئی۔ 
”کیا میری وفا میں کوئی کمی تھی؟“ ٹوٹا بکھرا لہجہ اور نم آنکھیں جو چھلکنے کو بے تاب تھیں لیکن یکدم ہی اس نے خود کو سنبھالا اسے کمزور نہیں پڑنا تھا۔ اسے اپنا آشیانہ بچانا تھا وہ آشیانہ جسے محبت، وفا، بھروسے، یقین کے تنکوں سے جوڑا تھا۔ آج وہ آشیانہ بے وفائی کی زد میں تھا۔ دھوکے کی ایسی کاری ضرب لگی تھی کہ تنکا تنکا بکھر گیا تھا لیکن وہ سب سنبھال لے گی وہ کچھ بکھرنے نہیں دے گی۔ سوچوں کے تانے بانے الجھ چکے تھے۔
”نہیں لیکن وفا محبت اور امید یہ سب کافی نہیں ہوتا ایک شادی میں؟“ شہزاد نے تیز لہجے میں کہا۔ 
”پھر کیا کافی ہوتا ہے؟ کیا نہیں دیا میں نے تمہیں؟ میں نے تمہیں اپنی سب سے قیمتی شے اپنا اعتبار سونپا تھا شہزاد سعید احمد لیکن تم خائن نکلے۔ چکنا چور کردیا میرا اعتبار۔ کہو کیا کمی تھی اس رشتے میں کیا نہیں دیا میں نے تمہیں؟“
”اولاد“، یک لفظی جواب نے اس رشتے کے تابوت پر آخری کیل ٹھونکی تھی۔ وہ گرتے گرتے بچی تھی۔ اس کی آنکھوں میں بے یقینی کا سیلاب امڈ آیا تھا۔ آج چار سال بعد ہی سہی وہ اسے طعنہ دے گیا تھا۔ 
”تم ماں نہیں بن سکتیں تو امی چاہتی تھیں کہ میں دوسری شادی کرلوں۔ کافی عرصے سے میں انہیں ٹالنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن اب ان کی طبیعت کو دیکھتے ہوئے مجھے ہامی بھرنی پڑی“، آیت نے بے یقینی کی سی کیفیت میں اسے دیکھا۔ اسے چند لمحے لگے تھے اس کی بات کو سمجھنے میں اور بے ساختگی میں اس کا ہاتھ شہزاد کا گال سرخ کر گیا تھا۔ وہ ضبط کیے بیٹھا رہا جب کہ یمنی نے ناگواری سے اسے دیکھا تھا۔ 
”میں یہاں ہماری شادی کی سال گرہ کی تیاری کر رہی ہوں اور تم نئی شادی کی نوید سنا رہے ہو؟ چار سال کی رفاقت بھلانے میں چار دن نہیں لگے تمہیں؟ تم! تم مجھے یہ بتا رہے ہو شہزاد کے تم دوسری شادی کرچکے ہو۔ تمہاری ہمت بھی کیسے ہوئی مجھے دھوکا دینے کی؟“ وہ ایک بار پھر اس پر جھپٹی تھی۔ یمنی نے آگے بڑھ کر اسے پیچھے دھکیلا۔ اس ساری صورتحال میں یہ پہلی بار تھا کہ وہ مکمل استحقاق سے ان دونوں کے درمیان آئی تھی۔ آیت تو اس کی جرات پر حیران تھی ہی شہزاد نے بھی اسے حیرانی سے دیکھا۔ یمنی نے اسے بات جاری رکھنے کا اشارہ کیا اور وہ اثبات میں سر ہلا کر گویا ہوا۔ 
”آیت! میں چاہتا تھا کہ تم بھی یہیں ہمارے ساتھ رہو لیکن یمنی کی شادی سے قبل یہ شرط تھی کہ وہ تب تک میرے ساتھ نہیں آئے گی جب تک میں تمہیں طلاق نہیں دے دیتا“، اس کی نگاہوں کے سامنے اندھیرا چھایا تھا اور وہ اگلے ہی لمحے ہوش و خرد سے بیگانہ ہو کر گر پڑی تھی۔ 
اسے ہوش آیا تو قیامت گزر چکی تھی۔ اس کا آشیانہ بکھر چکا تھا۔ بی جان نے بیٹھنے میں اس کی مدد کی۔ عمیر اس کا ہاتھ تھامے اس کے پاس بیٹھا تھا۔ 
”میں یہاں کیسے؟“ 
”تمہیں تین دن بعد ہوش آیا ہے آیت۔ ہمیں شہزاد نے فون کرکے اطلاع دی تھی کہ تم اسپتال میں ہو اور ہمیں فون کرکے وہ تمہیں لاوارثوں کی طرح اسپتال میں تنہا چھوڑ گیا“، بی جان کے منتی انداز اور آنکھوں کے اشاروں کو نظر انداز کرتے ہوئے عمیر نے مٹھیاں بھینچے غصے میں کہا۔ میں نے اس سے رابطہ کرنے کی کوشش بھی کی لیکن اس کا فون بند ہے اور وہ گھر پر بھی نہیں ہے۔ عمیر کا تین دن سے برا حال تھا اور وہ اس وقت آیت کی کیفیت کے بارے میں نہ سوچتے ہوئے مسلسل بول رہا تھا۔ عمیر کے الفاظ اسے ایک بار پھر اسی رات میں لے گئے تھے۔ 
آیت تو تین دن بعد ہوش میں آنے کی بات سن کر ہی چکرا کر رہ گئی تھی۔ اس نے ذہن پر زور ڈال کر سوچنا چاہا کہ آخر ہوا کیا تھا اس رات لیکن سر پریکدم ہی بھاری محسوس ہونے لگا۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے بھاری ہوتے سر کو تھاما۔ 
”میرا گھر، میرا آشیانہ بکھر رہا ہے۔ اسے بچاؤ۔ مجھے گھر جانا ہے مجھے گھر جانے دو“، وہ چیخی تھی۔ عمیر پریشانی سے آگے بڑھا۔ 
”بی جان آپ آیت کو لیٹنے میں مدد کریں میں ڈاکٹر کو بلاتا ہوں اسی اثنا میں اس کا فون بجنے لگا۔ شاہ میر کی کال تھی۔ وہ شاہ میر کو آیت کے بارے میں بتانے کے ساتھ ساتھ دوسرے وارڈ سے باہر آتی نرس سے ڈاکٹر کو بلانے کا بھی کہہ چکا تھا۔ آیت ہذیانی انداز میں چیختی ہوئی ایک بار پھر ہوش و خرد سے بیگانہ ہوچکی تھی۔
                            ****
”مرحا بیٹا کہاں رہ گئی تھیں آپ؟ میں کتنا پریشان ہوگئی تھی“۔ 
”امی کام کی تلاش میں گئی تھی اب اتنا وقت تو لگ ہی جاتا ہے“، اس نے تھکے ہارے انداز میں چادر تہہ کرکے رکھتے ہوئے امی کے ہاتھ سے پانی کا گلاس تھاما۔ 
”امی بہت بھوک لگ رہی ہے۔ کھانے کے لیے کچھ ہے؟“ وہ جب تک ہاتھ منہ دھو کر آئی فریحہ کھانا لگا چکی تھیں۔ ضحی بھی وہیں چلی آئی۔ تینوں سے ساتھ مل کر کھانا کھایا۔ مرحا برتن سمیٹنے کے بعد چائے کا پانی رکھتی ہوئی باہر آئی۔ 
”امی! ضحی! مجھے ایک گھر میں ٹیوشن پڑھانے کا کام مل گیا ہے۔ میری دوست ہے نا ندا ان کے پڑوس میں رہتی ہیں مسز انجم۔ مسز انجم اکیلی رہتی ہیں اپنے تین بچوں کے ساتھ۔ ان کے شوہر کی وفات کو دو سال ہوچکے ہیں۔ وہ اپنے شوہر کا بزنس خود سنبھالتی ہیں۔ میں آج انہیں کے ساتھ تھی۔ ندا نے ہی مجھے ان سے ملوایا تھا۔ اگر آپ لوگوں کو اعتراض نہ ہو تو میں کل سے ان کے گھر چلی جاؤں؟“ اس کے لہجے سے خوشی عیاں تھی کیوں کہ مسز انجم اسے دو گھنٹے پڑھانے کے آٹھ ہزار روپے دے رہی تھیں۔ ایک پارٹ ٹائم جاب سے اتنی تنخواہ ملنا اس کے لیے حیران کن تھا۔ 
امی اور ضحی نے اس کا خوشی سے تمتماتا چہرہ دیکھا تو وہ دونوں بھی مسکرا دیں اور اثبات میں سر ہلایا۔ 
”امی اب ہم ضحی کا علاج بھی کروالیں گے اور ہمیں کسی سے پیسے مانگنے کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی“، اسے ایک چھوٹا سا آسرا کیا ملا تھا اس نے اس کے سہارے خواب بننا شروع کردیے تھے۔ فریحہ بیگم اس کے جذباتی پن پر مسکرا دیں۔ وہ اپنے گھر میں سب سے چھوٹی تھی لیکن گھر کی ذمے داریوں نے اسے وقت سے پہلے نہ صرف سمجھ دار کردیا تھا بلکہ بے حد حساس بھی بنا دیا تھا۔
                          ****
جاری ہے۔۔۔



-English Language-


She delicately adjusted her saree and took one last look at the dining table, which was adorned with the aroma of appetizing food. After reviewing all the preparations, she came to the kitchen. Today she had made all the dishes of her beloved personality's choice and spent the whole day decorating the house in a very beautiful way. The whole house smelled of roses. Today was the fourth year of their marriage. He took the pineapple cake out of the fridge and placed it in the middle of the dining table. He glanced at the wall clock, it was five minutes past nine.

She hurried into the room and looked at herself in the tall mirror and smiled. Remove the catcher from the hair and drop some hair on the left side. She picked up the red lipstick from the dressing table, touched it, and walked towards the bed wearing a delicate bracelet in her hand. She came out carrying a gift for Shahzad. Shehzad's arrival was only a few minutes away and she wanted to complete all the work before he arrived.

 Don't know why lips were smiling automatically today. She used to do so much every year but I don't know what was the matter today that her heart wanted her to light the lamp of her love in every corner of the house. Whether he wanted to or not, the lamp of his love remained lit in this house forever.

Shehzad Saeed and Ayat Farid were not only travelers but also business partners. Shehzad would consider himself the luckiest person to get the verse. Not only their love but also their mental harmony was enviable. Ayat was a working woman as well as a polite wife. They have been living a happy and ideal life with each other for four years. Despite not having children, they complimented each other's caste with their existence. They would celebrate every day, big or small, by giving surprises and gifts to each other and adding happiness to the book of life.

These hours of waiting for Ayat Farid were impossible. His eyes sometimes stared at the door, sometimes at the ticking of the clock. It was twelve minutes past nine. He picked up the phone and anxiously dialed Shahzad's number. The number was dropped after a few bells.

"Have they forgotten today?" He thought, pressing his finger under his teeth.

"They will come," he said, reassuring himself.

A few more moments had passed and he saw the food cooling with anxiety and slowly melting the cake like these beautiful bridges slipping from his life. He quickly picked up the cake and put it back in the fridge. I don't know why my heart was getting restless. Hashish Bashash had a worried look on his face. Shehzad had never done this before. He would inform her of his moment.

"Where are you, Prince?" He muttered anxiously again, dialing the number and putting the phone to his ear, but when he did not receive an answer, he looked at the clock in frustration, which was indicating ten o'clock. She wrapped her hair in a pair and put on a catcher and picked up the dishes and put them in the kitchen and came back and sat on the sofa with the TV open.

Sometime in the night, the door opened and the sound of someone talking and laughing opened his eyes, he looked around and tried to remember. She slept on the sofa in the lounge while waiting for Shahzad. When he saw the time, it was two o'clock in the morning. Earlier, he was seen entering the Shahzad Lounge in shock. He was not alone. At that time of night, he was entering the house holding the hand of a girl.

                              *****

"Are you still looking for this girl Shah Mir?" At Umair's question his paperweight hand was stopped for a moment, he looked up and slowly nodded in affirmation. Umair was sad to see her bloodshot eyes. He was definitely at the limit of his endurance.

Today, he found out from Jahanzeb Rizvi's advertising agency that Shah Mir had contacted him to get information about a girl. This was a common thing in his field but Umair was well aware of the special reason behind this common thing. For the last six months, he has been searching for her like crazy.

Shah Mir Suleiman Shah was a successful man whose life was marked only by victory. He knew the art of turning the game around, so he would win money on every board, but the game was out of his hands. Shah Mir Shah was a loser for the first time and even a loser is a spread of love, who could say that this is the same Shah Mir who did not even look at Nazneen. Today, an ordinary girl is heartbroken. Love has filled all four boxes so that someone seems crazy. A madman who had been searching for a glimpse of Jabeen for the last several months, but she had gone into hiding without knowing it.

"Do you know his name?" After a few moments of silence, Umair started talking from there. He shook his head in denial.

"Is there a picture?" The answer was the same.

"How will you find it?"

"I'll do it. I'm so sure of the force right now." Umair looked at him sadly. He knew less of this love and more of a madman's rage. To him, it was all madness, and he had nothing to do with people who fell ill in love.

"I want you to take a break from work for a while. You just have to be more discriminating with the help you render toward other people. "

"When did you think I had such weak nerves?"

"Love betrays the good Alexanders, my dear", he laughed openly at Umair's words.

"Nazish wants to meet you", her smile moments I was smitten.

"In what connection?" He frowned.

"I don't think I need to tell you at least why the heroines want to meet the producers here." He said in a low voice that perhaps he was already aware of the reaction.

Hmmm! Tell him to be ready till two or seven o'clock. My driver will cook it, I'll do it with him at dinner today. "

"You look like you're my girlfriend and I'm going on a date with someone else by cheating on you."

"I am amazed to see that you will come out of the gate of madness so soon. It would have been difficult for you to breathe without it and now the dinner plan.

"Even if he stops talking nonsense, he knows that there is something important to talk about for the next project. If he wants, he can become a bone in the kebab."

"No, Nazish Bibi, congratulations to you. We intend to have dinner with Amaya Sikandar and then watch a movie," he said, closing one eye mischievously.

"I call B. John," said Shah Mir, picking up the phone.

"No, man, she will miss her niece again." Shah Mir laughed when he made a face. Umair breathed a sigh of relief when he saw her smiling. That was enough for now.

                          *****

Ayat got up and tried to understand the matter and looked at him with complaining eyes which he deliberately ignored.

"Meet her. This is Yemeni. My aunt's daughter came from Lahore a month ago." He was standing with Shahzad but saw a very beautiful and modern girl whose hand was in Shahzad's hand. The verse stood stunned at this sincerity.

"And the Yemenis are these verses," he said, introducing the verse, but the focus of the verse's attention and gaze was still on his hands, so he had to stand so calmly.

"Will you eat?" Ayat looked at Shahzad barely ignoring him. The twinkling eyes in Shahzad's eyes and the gaze of Yemeni made him fearful of one of them.

"No, we have come to eat. Sit down. I have something to say to you. Let me bring some Yemeni stuff inside. ”

As soon as he went out, the verse was gripped by the fear of someone. She sat down on the couch, breathless. The girl who came with him was now looking at everything in the house with full privilege. She began to compare herself and this girl. Seeing her long curly brown hair imprisoned in a ponytail and a few strands coming out of the ponytail and touching her cheeks and neck, she touched her short cut hair in a short step cutting. She was wearing a jeans t-shirt. The ticking of his heels echoed throughout the house. When Shahzad came in with his belongings, he had three suitcases and a handbag in his hand. Her luggage did not look like a guest's. Nor did Shahzad keep his luggage in the guest room.

"If there is no guest, then who is there?"

When Shahzad came and sat on the sofa, she brought a glass of water. She sat on the sofa with her hair behind her ears.

"If you want to sleep, we'll talk in the morning," he said, rubbing a glass of water to his lips and staring at the verse.

"Don't say I'm listening," he said, taking Plow's fringe in his hand.

"Yemen and I got married four days ago, in front of all the family and with their consent," he said in a spotty tone without any preamble. He paused to test his reaction. She lowered her eyes and sat in silence. The heart was remorseful.

"Ayat", he looked at her with blank eyes. Today, his name seemed strange to him. So did he lose the right to call her name? Ignoring the question of the heart, she said.

"Was there a lack of faithfulness in me?" Broken tone and wet eyes that were eager to glow, but as soon as he regained his composure he did not have to weaken. He had to save his nest, the nest which was bound with straws of love, fidelity, trust, and belief. Today, Ashiana was in the throes of infidelity. The deception was such that the straw was scattered, but she would handle it all, she would not let anything scatter. The fabric of thoughts was tangled.

"No, but loyal love and hope are not enough in one marriage?" Shahzad said sharply.

Is that enough? What did I not give you? I entrusted my most precious thing to you, Shahzad Saeed Ahmed, but you turned out to be a traitor. Grease stole my trust. Tell me, what was lacking in this relationship, what did I not give you? ”

"Children", a one-word answer, was the last nail in the coffin of this relationship. She was a falling child. There was a flood of uncertainty in his eyes. Today, four years later, he was ridiculed.

"If you can't be a mother, my mother wanted me to remarry. I have been trying to avoid them for a long time but now I have to reassure them considering their nature ”, the verse looked at him in a state of uncertainty. It took him a few moments to understand what he was saying and his hand had turned Shahzad's cheek red. He sat stunned as the Yemeni stared at him in disgust.

"I'm getting ready for our wedding year here and you're promising a new wedding?" Didn't it take you four days to forget four years of friendship? You! You tell me You are Shahzad's second marriage. How did you dare to deceive me? ”She snapped at him again. The Yemeni advanced and pushed him back. It was the first time in all this situation that she had come between the two with full privilege. Ayat was astonished at his courage and Shahzad also looked at him in astonishment. The Yemeni motioned for him to continue, and he nodded.

”Verse! I wanted you to stay here with us, but before the Yemeni marriage, the condition was that she would not come with me until I divorced you. " For a moment, she fell unconscious.

When he regained consciousness, the Hour had passed. Her nest was shattered. B. John helped him sit up. Umair was sitting beside him holding his hand.

"How am I here?"

You came to your senses three days later. Shehzad had called us and informed us that you are in the hospital and after calling us, he left you alone in the hospital like a homeless person. ۔ I tried to contact him but his phone is off and he is not at home. Umair had been in a bad condition for three days and he was constantly talking without thinking about the condition of the verse at that time. Umair's words took him again that night.

Ayat was stunned to hear that he had regained consciousness three days later. He wanted to think hard about what had happened that night but his head started to feel heavy. He held the heavy head with both hands.

"My house, my nest is falling apart. Save it I have to go home, let me go home, ”she shouted. Umair went ahead with the trouble.

"John, help me to read the verse. I'll call the doctor. At the same time, his phone started ringing." It was Shah Mir's call. He had told Shah Mir about the verse and also asked the nurse coming from the other ward to call the doctor. The verse, screaming in a delusional manner, was once again alienated from consciousness.

                            ****

"Where are you, my dear son?" How upset I was. "

"Amy went in search of work, now it takes so long," he said, folding the sheet in a weary manner and holding a glass of water from Amy's hand.

"Amy is very hungry. Is there anything to eat? ”By the time she washed her hands, she had finished eating. Zahi also came there. The three ate together. Maria came out with a cup of tea after wrapping the pot.

"Amy!" ضحی! I got a home tuition job. My friend Nanda lives in their neighborhood, Mrs. Anjum. Mrs. Anjum lives alone with her three children. It has been two years since her husband's death. She manages her own business. I was with them today. It was Nada who introduced me to them. If you guys don't mind, should I go to their house tomorrow? ”Happiness was evident in her tone as Mrs. Anjum was paying her Rs. 8,000 for two hours of teaching. It was amazing to get such a salary from a part-time job.

When Amy and Zahi saw his happy face, they both smiled and nodded in affirmation.

"Amy, now we can treat Zahi and we won't have to ask for money from anyone," he said. Fareeha Begum smiled at his emotionality. She was the youngest in her family but the responsibilities of home not only made her sensible but also extremely sensitive.

                          ****

to be continued...



Comments

  1. Thanks for your finding this post useful. It’d be great if you could share it with any of your followers by using the social media sharing buttons below. But I think you are using a Professional Blogger Template 2022. Pls tell me!

    ReplyDelete
  2. Your website is best and awesome also checkout my website Crypto Details

    ReplyDelete

Post a Comment

Popular posts from this blog

New Urdu Sad poetry | New English Poetry 2022 | New Love Poetry

Sad Poetry in Urdu 2 Lines - Two Line Shayari

Insurance company Health American