New Hindi Novels | 142+New Hindi Romantic Novels 2022 | Urdu Novels For Kids 2022

( محبت کی بساط پر )

قسط نمبر2 )




ڈاکٹر نے اسے سکون آور ادویات دی تھیں جن سے وہ غنودگی میں چلی گئی تھی لیکن مسلسل اس کی زباں پر شہزاد کا نام تھا۔ وہ نام جو چھ سالوں سے اس کی زباں پر جاری تھا۔ چند گھنٹوں میں اجنبی بن چکا تھا لیکن وہ اجنبی کیسے ہوسکتا ہے وہ تو روم روم میں سمایا ہوا ہے۔ وہ، وہ مجھ سے جدا کیسے ہوسکتا ہے۔ اس کی آنکھوں کے گوشے بھیگے ہوئے تھے۔ ذہن بار بار وہی لفظ دہرا رہا تھا۔ اس ایک لفظ ”طلاق“ کی تکرار نے نیم غنودگی کی کیفیت میں بھی اسے سر تکیے پر پٹخنے پر مجبور کردیا تھا۔ یہ کیسی چال چلی تھی وقت نے کہ بازی پلٹ کر رکھ دی تھی۔ وہ جو دو قالب اور یک جان تھے آج ساحل کے دو کنارے تھے۔ 

 عمیر نے بے بسی سے اسے دیکھا اور باہر چلا آیا۔ اپنی چہیتی لاڈلی بہن کو اس حال میں دیکھنا اس کے لیے سوہان روح تھا۔ اسے لگ رہا تھا کہ کوئی تیز دھار آلے سے اس کے وجود کے ٹکڑے کر رہا ہے۔ اس نے نم ہوتی آنکھوں سے گلاس ڈور کے اس پار اس بے سدھ پڑے وجود کو دیکھا جس کی خاطر وہ بارہ سال کی عمر میں مرد بن گیا تھا۔ آیت کو کالج میں ایڈمیشن کروانے کے لیے ساتھ لے جاتے وقت اسے احساس ہوا تھا کہ بابا جان کے انتقال کے بعد اب اسے ہی سب کو سنبھالنا تھا۔ وہ دن اور آج کا دن وہ اپنے کسی فرض سے پیچھے نہ ہٹا تھا۔ بابا جان سے کیا گیا وہ آخری وعدہ وہ آج بھی نبھا رہا تھا۔ اپنی بہنوں اور ماں کی خوشی اس کے لیے ہر شے سے مقدم تھی۔ 

وہ اب تک بی جان کی وجہ سے خاموش تھا لیکن وہ مزید یہ سب برداشت نہیں کرنے والا تھا۔ اسے شہزاد سے آیت کے ہر آنسو کا حساب لینا تھا۔ وہ غصے سے مٹھیاں بھینچے راہداری میں ٹہل رہا تھا۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ شہزاد کا خون کردے جس نے اس کی بہن کی یہ حالت کردی تھی۔ یہ تو وہ آیت تھی ہی نہیں جو ہنس مکھ سی تھی ہمیشہ نک سک سی تیار اور اپ ٹو ڈیٹ رہتی تھی۔ جو رونے والوں کو ہنسانے کا ہنر جانتی تھی۔ یہ تو تین دن میں ہی وہ برسوں کی بیمار لگنے لگی تھی۔ یہ تو طے تھا کہ شہزاد سعید کو اس کی ہر زیادتی کا حساب دینا تھا۔ 

وہ ڈاکٹر سے آیت کی رپورٹس کا پوچھنا جارہا تھا جب اس نے شاہ میر کو آتے دیکھا تو بھاگ کر اس کے سینے سے جا لگا۔ 

”عمیر! کیا ہوا آیت کو؟“ اس نے اسے سینے میں بھینچتے ہوئے استفسار کیا۔ وہ ابھی کراچی پہنچا تھا۔ گزشتہ پانچ چھ دن سے وہ شوٹنگ کے سلسلے میں اسلام آباد گیا ہوا تھا۔ رات میں اسے عمیر سے آیت کے بارے میں معلوم ہوا تھا اور وہ صبح کی پہلی فلائٹ سے کراچی پہنچا تھا۔ وہ اس صورتحال میں کسی صورت عمیر اور بی جان کو تنہا نہیں چھوڑ سکتا تھا۔ جانتا تھا کہ وہ اپنی بہنوں کے لیے کس قدر حساس ہے اور ایسے موقع پر وہ کوئی بھی انتہائی قدم اٹھانے سے نہیں چوکتا۔ ان کی ذرا سی تکلیف پر اس کا جینا دو بھر ہوجایا کرتا تھا۔ آیت اور سحر اس کے لیے بھی بہنوں سے کم نہیں تھیں۔ جب سے ہوش سنبھالا تھا یہی تو اس کا کنبہ تھا۔

 اس نے بچوں کی طرح بلکتے ہوئے شاہ میر کو ساری صورتحال سے آگاہ کیا۔ شاہ میر نے پریشانی سے اسے دیکھا اور حوصلہ رکھنے کو کہا۔ وہ خود جاکر ڈاکٹر سے ملا لیکن ڈاکٹر نے بھی کوئی حوصلہ افزا بات نہیں کی۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلسل اسٹریس کی وجہ سے آیت کا بی پی بہت ہائی ہے جس سے دماغ کی شریان پھٹنے کا بھی خدشہ ہے۔ ہوش میں آتے ہی چیخنے چلانے لگتی ہے  اسے کسی اچھے ماہر نفسیات کی بھی ضرورت ہے ورنہ ان کا ذہنی توازن بھی بگڑ سکتا ہے۔ اہم نے کچھ مزید ٹیسٹ کیے ہیں رپورٹس آتے ہی ہم آپ کو تفصیلات سے آگاہ کرتے ہیں۔  شاہ میر کی پریشانی میں اضافہ ہوا تھا۔ وہ یہ باتیں عمیر کو فی الحال نہیں بتا سکتا تھا۔ اس نے اپنے بابا سلیمان شاہ کو کال کرکے ساری صورتحال سے آگاہ کیا اور ان سے اپنے دوست اور ماہر نفسیات سجاد ہاشمی صاحب سے رابطہ کرنے کو کہا۔ 

سلیمان شاہ اور بی جان یعنی وجیہہ بیگم آپس میں کزن تھے۔ وجیہہ بیگم سلیمان شاہ کی چچازاد تھیں۔ والدین کا ایک حادثے میں انتقال ہوگیا تھا۔ ان کی پرورش اور شادی کی ساری ذمے داری سلیمان شاہ اور ان کے والدین نے ہی اٹھائی تھی۔ وجیہہ بیگم کی شادی سلیمان شاہ کے بہترین دوست فرید حسین سے ہوئی تھی جو نہ صرف سلیمان شاہ کے دیرینہ دوست تھے بلکہ بزنس پارٹنر بھی تھے۔ دونوں نے مل کر ایک چھوٹی سی گارمنٹس فیکٹری لگائی تھی اور دن رات محنت کرکے شاہ فرید سنز کی بنیاد رکھی تھی۔ دونوں خاندان شروع سے ہی ایک دوسرے کے بے حد قریب تھے۔ سلیمان شاہ اور فرید حسین نے کبھی بچوں میں فرق نہیں رکھا اسی لیے آج دونوں خاندانوں میں مثالی پیار تھا۔ 

شاہ میر شاہ سلیمان شاہ اور ارم بی بی کی اکلوتی اولاد تھا۔ ارم بی بی چند سال قبل کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہو کر دار فانی سے کوچ کر گئی تھیں۔ جب کہ وجیہہ بیگم اور فرید حسین کے تین بچے تھے۔ سب سے بڑی آیت فرید، پھر عمیر اور سب سے چھوٹی سحر فرید۔ آیت عمیر اور شاہ میر دونوں سے بڑی تھی اسی لیے دونوں پر رعب جمائے رکھنے کے ساتھ ساتھ دونوں کے بے حد قریب بھی تھی۔ اسے اس حال میں یوں بکھرا ہوا دیکھنا دونوں کے لیے آسان نہ تھا۔ 

وہ جیسے ہی باہر آیا عمیر فورا اس کی طرف آیا تھا۔ 

”شاہ میر ڈاکٹر نے کہا کہا؟ آیت ٹھیک ہوجائے گی نا؟“

”ہاں عمیر! آیت بالکل ٹھیک ہوجائے گی۔ بس ڈاکٹر اسے ایک دو دن انڈر آبزرویشن رکھنا چاہ رہے ہیں پھر ڈسچارج کردیں گے“، شاہ میر نے حتی الامکان لہجہ نارمل رکھتے ہوئے کہا۔ 

”میں تو یہ بھی نہیں جانتا کہ اس کی اس حالت کا ذمے دار کون ہے؟ ایسا کیا ہوا اس کے اور شہزاد کے درمیان کہ آیت اسپتال پہنچ گئی اور شہزاد نے مڑ کر خبر تک نہیں لی“۔ شاہ میر نے عمیر کی بات پر حیرانی سے اسے دیکھا۔ یہ بات واقعی قابل توجہ تھی کہ شہزاد اس وقت اگر آیت کے پاس نہیں ہے تو کہاں ہے؟ 

”وہ سب ہم بعد میں دیکھیں گے عمیر، ابھی تم بی جان کو گھر لے کر جاؤ۔ تم بھی فریش ہو شام تک آجانا“، وہ جو وہاں سے ہلنے پر آمادہ نہیں تھا شاہ میر کو اطمینان سے بینچ پر بیٹھتے دیکھ کر گھورا۔ 

”جاؤ یار!“، شاہ میر نے اس کی گھوریوں کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔ 

💔 ***** 💔


آج کا اس کا مسز انجم کے گھر میں پہلا دن تھا۔ ان کے تین بچے تھے۔ دو بیٹے احد اور حنظلہ اور ایک بیٹی ام ہانی تھی۔ احد اور حنظلہ ساتویں جماعت میں جب کہ ام ہانی چھٹی جماعت میں پڑھتی تھی۔ تینوں بچے انتہائی شرارتی تھے لیکن پڑھنے میں بے حد لائق تھے اور یہی ان کے لیے پریشانی کا باعث تھا۔  مسز انجم چاہتی تھیں کہ ان کی پڑھائی کسی بھی طرح متاثر نہ ہو لیکن وہ جب بھی کوئی ٹیوٹر ان کے لیے رکھتیں وہ اپنے سوالوں اور نت نئے تجربوں سے اسے پریشان کرکے رکھ دیتے۔ یوٹیوب سے وڈیوز دیکھ کر عملی تجربات کرنا ان کا واحد پسندیدہ مشغلہ تھا۔ احد کا پسندیدہ مضمون سائنس تھا اور اپنے سائنسی تجربات کے لیے اس کی جیبیں ہمہ وقت مختلف چیزوں سے بھری رہتی تھیں۔ پھر چاہے وہ ماچس کی ڈبیا، ربر بینڈ، چھوٹی چھوٹی بیٹریز، سیل ہوں یا پینچ کس اور نیلی پیلی لال رنگ کی تاریں سب چیزیں جیبوں میں ہر وقت ٹھنسی رہتی تھیں اور بوقت ضرورت ہر شے اس کی جیب میں سے بر آمد ہوجایا کرتی تھی۔ 

 ام ہانی کا پسندیدہ مضمون تاریخ تھا اور اسے خاص کر جنگجووں اور ان کی حالات زندگی کے بارے میں جاننے میں خصوصی دلچسپی تھی۔ اس کے علاوہ مارشل آرٹس سے اسے خصوصی لگاؤ تھا۔ جب کہ حنظلہ آج کے دور کا بچہ تھا جس کی ساری توجہ کمپیوٹر سے ٹیبلٹ اور ٹیبلٹ سے موبائل پر مرکوز رہتی تھی۔ ہر کمپنی کے جدید ماڈلز کے فونز، لیپ ٹاپ، کمپیوٹر، ونڈوز اور سافٹ وئیرز کی معلومات اسے ازبر تھیں۔ ایسے میں جو ٹیوٹر انہیں پسند نہ آتا اس کی جان عذاب میں آجایا کرتی تھی۔ مسز انجم ہر پندرہ دن بعد ٹیوٹرز بدلتے بدلتے پریشان ہوگئی تھیں۔ 

مرحا سے قبل جو لڑکی انہیں پڑھاتی تھی وہ احد کے سائنسی تجربے کی نذر ہوچکی تھی۔ اسی لیے مسز انجم نے ندا کے بتانے پر کہ مرحا کو پیسوں کی اشد ضرورت ہے اس  کی ڈیمانڈ سے بڑھا کر فیس رکھی تھی اور کچھ پیسے اسے ایڈوانس بھی دے دیے تھے۔ مرحا کے چہرے پر چمکتی خوشی دیکھ کر انہیں لمحہ بھر کے لیے افسوس ہوا تھا کہ کاش وہ اپنے افلاطون بچوں کے کارناموں سے اسے پہلے آگاہ کردیتیں لیکن وہ اسے ابھی سے پریشان نہیں کرنا چاہتی تھیں۔ 

💔 *****💔

بی جان کسی بھی صورت آیت کو تنہا چھوڑ کر جانے پر آمادہ نہیں تھیں۔ عمیر اور شاہ میر نے بمشکل انہیں راضی کیا یہ کہہ کر کہ سحر گھر میں اکیلی پریشان ہورہی ہوگی۔ سحر کا خیال آتے ہی انہیں اس کی فکر ہوئی تھی۔ 

”بی جان آپ اور عمیر گھر جائیں میں شام تک یہیں ہوں۔ آیت کے جو بھی ٹیسٹ ہوں گے اور جیسے ہی اسے ہوش آئے گا میں عمیر کو فون پر بتادوں گا“، شاہ میر نے انہیں تسلی دی تھی۔ انہوں نے شاہ میر کے ماتھے پر بوسہ دیا تھا۔ وہ انہیں اپنے بچوں کی طرح ہی عزیز تھا۔ 

شاہ میر نے اپنے پی اے کو کال کرکے آج کی میٹنگز کینسل کروائیں اور وہیں انتظار گاہ میں آ کر بیٹھ گیا۔ وہ بھی تھک گیا تھا تو کچھ دیر کے لیے یونہی بیٹھے بیٹھے آنکھیں موند لیں۔ وہ آیت کی طرف سے پریشان تھا اور شہزاد کا غائب ہونا اسے تشویش میں مبتلا کر رہا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ عمیر کو زیادہ دیر تک سنبھالے رکھنا مشکل ہے۔ وہ اس وقت شہزاد کو تلاش کر رہا ہوگا۔ دوسری جانب آیت کی مسلسل بگڑتی طبیعت جس سے عمیر اب تک ان جان تھا۔ اس نے پیشانی کو مسلتے ہوئے دھیرے سے آنکھیں کھولی تھیں۔ وہ ابھی مزید سوچتا اس سے قبل اسے سلیمان شاہ آتے دکھائی دیے۔ اس نے گہری سانس خارج کی تھی۔ ان کے آنے سے اسے گو نہ گو سکون ملا تھا۔ وہ دھیرے سے مسکرایا۔ آگے بڑھ کر گرمجوشی سے ملا۔ ان سے بھی وہ پانچ چھ دن کے بعد مل رہا تھا۔ 

تھوڑی ہی دیر میں وہ ڈاکٹر کے کیبن میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ساری تفصیلات جاننے کے بعد سلیمان شاہ نے فکر مندی سے شاہ میر کو دیکھا۔

”کیا وجیہہ یہ سب جانتی ہیں؟“

”نہیں بابا! بی جان اور عمیر کو کچھ نہیں معلوم۔ عمیر کے سر پر خون سوار ہے اور بی جان کو بتانے کا ہم رسک نہیں لے سکتے ان کی طبیعت کی وجہ سے۔ میں اپنے طور پر ہی شہزاد کو ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا ہوں“، شاہ میر نے باہر آکر انہیں تفصیلات بتائی تھیں۔ انہوں نے اثبات میں سر ہلایا۔ وہ شاہ میر کی بات سے متفق تھے۔ وجیہہ دل کی مریضہ تھیں۔ وہ یہ سب کبھی سہہ نہ پاتیں۔ 

آیت ان کی بیٹیوں جیسی تھی بلکہ بچپن سے انہوں نے اسے اور سحر کو بیٹی ہی سمجھا تھا۔ ان کی دیرینہ خواہش تھی کہ آیت کی شادی شاہ میر سے ہو وہ اپنی بیٹی کو ہی بہو بنا کر لائیں لیکن آیت شہزاد کو پسند کرتی تھی اس لیے وہ اپنی خواہش دل میں دبا گئے لیکن آج آیت کی یہ حالت دیکھ کر دل نے ایک بار پھر کہا تھا کہ کاش میں پہلے ہی وجیہہ سے آیت کا ہاتھ مانگ لیتا تو میری بچی اس حال میں نہ ہوتی۔

💔 *****💔

مرحا فریحہ بیگم کو خدا حافظ کہہ کر چلی آئی تھی لیکن ان کی سانس وہیں اس کی قدموں کی آہٹ میں اٹک گئی تھی۔ انہیں وہ دن یاد تھا جب وہ سیٹھ بابر کی کوٹھی سے روتی ہوئی آئی تھی اور روتے روتے وہاں کبھی نہ جانے کی رٹ لگائی ہوئی تھی۔ جب فریحہ بیگم نے اسے جھنجھوڑتے ہوئے پوچھا تھا کہ اگر وہ کام نہیں کرے گی تو ضحی کا علاج کیسے ہوگا، گھر کا خرچہ کیسے چلے گا۔ تو وہ اپنی پوری شدت سے چلائی تھی اور کہا تھا، ”امی میں کام کروں گی، کما کر بھی لاؤں گی۔ ضحی کا علاج بھی کرواؤں گی لیکن اپنی عزت کے عوض ہر گز نہیں“، اس کے لہجے میں برسوں کی تھکاوٹ تھی۔ اس کے چار لفظوں نے فریحہ بیگم کو اندھی کھائی میں دھکیل دیا تھا۔ انہوں نے غور سے اس کا چہرہ دیکھا تھا اور اپنا آپ بے حس اور ظالم لگ رہا تھا جو انہوں نے اس معصوم بچی پر سارا بوجھ لاد دیا تھا۔ 

”کیا میں نے خود اپنی بیٹی کو ان ظالم بھیڑیوں کا نوالہ بننے کے لیے چھوڑ دیا تھا؟“ وہ نفی میں سر ہلاتی ہوئی بے بسی سے رو پڑی تھیں۔ 

ضحی کی بیماری نے انہیں مرحا کی تکلیف سے نظریں چرانے پر مجبور کردیا تھا لیکن آج غور سے اپنی بیٹی کو دیکھا۔ ان کی سترہ سال کی مرحا جسے حالات نے وقت سے پہلے سمجھ دار کردیا تھا۔ اس عمر میں تو لڑکیاں کالج، یونیورسٹیوں میں سہیلیوں کے درمیان بیٹھ کر منگنیوں کے قصے سناتی ہیں۔ مستقل کی منصوبہ بندی کرتی ہیں، کچھ بننے کے خواب دیکھا کرتی ہیں لیکن اس عمر میں ان کی لاڈلی کو اپنی عزت کی حفاظت کی فکر لاحق تھی۔ آنکھ سے آنسو ٹوٹ کر گرا تھا۔ 

اس کی قد کاٹھ بھی تو ایسی تھی۔ خوب صورتی میں اپنے باپ پر گئی تھی۔ گندمی رنگت، گھنے، سیاہ بال اور بڑی بڑی بادامی آنکھیں دیکھنے والوں کو چند لمحے کے لیے ساکت کردیتی تھیں۔ حالات نے اس سے اس کا بچپن چھین لیا تھا اور گھر سے باہر قدم نکالتے ہی چاروں اور بیٹھے گدھ اس کی جوانی کے درپے تھے۔ وہ بھی مجبور تھیں بیمار ضحی کو تنہا چھوڑ کر مرحا کی حفاظت کے لیے اس کے ساتھ نہیں آ جا سکتی تھیں۔ فریحہ بیگم پریشان ہوگئی تھیں۔ مرحا کی بات بھی غلط نہ تھی۔ لڑکی ذات تھی خود پر پڑنے والی بھلی بری نگاہ پہچان سکتی تھی۔ 

فریحہ بیگم نے گھر پر رہ کر سلائی کا کام کرنا شروع کردیا اب وہ مرحا کو کسی کے گھر جا کر کام کرنے نہ دیتی تھیں۔ مرحا محلے سے کپڑوں کا آرڈر لے کر آتی اور سلائی کے بعد گھروں پر پہنچا کر آجاتی اب یہی اس کی ذمے داری تھی۔ یوں تھوڑی بہت گزر بسر ہونے لگی تھی۔ مرحا چاہتی تھی کہ وہ آگے پڑھے۔ اس نے محلے کے بچوں کو ٹیوشن پڑھانا شروع کردیا اور آئی کام کے پرائیویٹ امتحان دیے اور آگے کالج میں ایڈمیشن لے لیا۔ وہ بی کام کر رہی تھی اور ساتھ ہی ایک اکیڈمی میں پڑھانے بھی لگی تھی۔ اس کا اعتماد کافی حد تک بحال ہوا تھا۔ زمانے کی اونچ نیچ سمجھ آنے لگی تھی۔ اب اسے نہ صرف گھر کے اخراجات اور اپنی پڑھائی کے اخراجات پورے کرنے تھے بلکہ ضحی کے آپریشن کے لیے بھی پیسے جمع کرنے تھے۔ اس کے خوابوں کی پٹاری میں خواہشیں کم ضرورتیں زیادہ تھیں۔ 

فریحہ بیگم نظر کمزور ہونے کے سبب مسلسل سلائی نہیں کر پارہی تھیں اور مرحا بھی چاہتی تھی کہ اب وہ آرام کریں اور باقی ساری ذمے داری اسے سونپ دیں۔ بہت مشکلوں سے اسے مسز انجم کے گھر ایک مناسب روزگار ملا تھا۔ وہ کافی پر امید تھی۔ سیٹھ بابر کے گھر کے بعد یہ دوسرا گھر تھا جہاں وہ کام کرنے جارہی تھی لیکن اس کی خوش قسمتی تھی کہ مسز انجم اکیلی رہتی تھیں۔ وہ اس جاب کو لے کر مطمئن تھی۔ اس نے قریبی بیکری میں بھی بات کی تھی وہ صبح کے وقت گھر پر ہی فریحہ بیگم کے ساتھ مل کر کپ کیکس اور ڈونٹس بنا کر بیکری پر رکھوا دیتی تھی اور ہر ہفتے ان سے ان چیزوں کے پیسے لے لیتی تھی۔ یوں نہ صرف کام اچھا چل رہا تھا بلکہ اب اس کے پاس بچت بھی ہونے لگی تھی۔ 


💔*****💔

جاری ہے۔۔۔۔


--English Language--


On the chessboard of love


Episode 2


The doctor had given her sedatives that made her drowsy, but Shahzad's name was constantly on her tongue. The name that had been on his tongue for six years. He had become a stranger in a few hours, but how could he be a stranger? He, how can he be separated from me. The corners of his eyes were wet. The mind was repeating the same word over and over again. The repetition of this one word "divorce" forced him to lie on his head even in a state of semi-drowsiness. What a trick it was to turn the tide. Those who were two molds and one soul were two shores of the coast today.

 Umair looked at him helplessly and came out. Seeing his beloved Ladli sister in this condition was a beautiful soul for him. It was as if someone were sharpening his body with a sharp instrument. With wet eyes, he saw the unsettled being across the glass door for which he had become a man at the age of twelve. While taking Ayat to college for admission, he realized that after the death of Baba Jan, he was the one to take care of everything. That day and today he did not back down from any of his duties. He was fulfilling the last promise made to Baba Jan even today. The happiness of his sisters and mother was paramount to him.

He was still silent because of his life, but he could not bear it anymore. He had to hold Shahzad accountable for every tear in the verse. He was walking down the aisle, clenching his fists in anger. He could not bear to kill Shahzad who had caused this condition to his sister. It wasn't just a laughing stock, it was always ready and up to date. She knew how to make people cry. In just three days, she began to look sick for years. It was decided that Shahzad Saeed would have to give an account of his every abuse.

He was going to ask the doctor about the reports of the verse. When he saw Shah Mir coming, he ran and ran away from his chest.

"rich! What happened to the verse? ”He asked, squeezing her chest. He had just reached Karachi. He had been in Islamabad for the last five or six days for the shooting. At night he learned the verse from Umair and he reached Karachi on the first flight of the morning. In this situation, he could not leave Umair and Bijan alone. He knew how sensitive he was to his sisters and he would not hesitate to take any extreme step on such an occasion. His life was cut short by their slightest pain. Ayat and Sahar were no less than sisters for her. That was his family since he regained consciousness.

 He informed Shah Mir about the whole situation. Shah Mir looked at him anxiously and asked to be encouraged. He went to see the doctor himself but the doctor did not say anything encouraging. He said that the BP of the verse is very high due to constant stress which may lead to rupture of the cerebral artery. As soon as he regains consciousness, he starts screaming. He also needs a good psychologist, otherwise, his mental balance may deteriorate. Important has done some more tests. We will inform you of the details as soon as the reports come. Shah Mir's anxiety had increased. He could not tell Umair these things at the moment. He called his father Suleiman Shah and informed him about the situation and asked him to contact his friend and psychologist Sajjad Hashmi.

Suleiman Shah and Bijan (Wajiha Begum) were cousins. Wajiha was the cousin of Begum Suleiman Shah. The parents died in an accident. Suleiman Shah and his parents took full responsibility for their upbringing and marriage. Wajiha Begum was married to Suleiman Shah's best friend Farid Hussain who was not only a long-time friend of Suleiman Shah but also a business partner. Together they set up a small garment factory and worked day and night to establish Shah Farid Sons. The two families have been very close since the beginning. Suleiman Shah and Farid Hussain never differentiated between children, so today there was an ideal love between the two families.

Shah Mir Shah was the only child of Suleiman Shah and Iram Bibi. I'm Bibi passed away a few years ago after suffering from cancer. Wajiha Begum and Farid Hussain had three children. The biggest verse is Farid, then Umair, and the smallest Sahar Farid. Ayat Umair and Shah Mir were older than both of them, so they were terrified of both of them and very close to both of them. It was not easy for them both to see him in such a state.

As soon as he came out, Umair came towards him.

What did Shah Mir Doctor say? The verse will be fine, won't it? ”

Yes, Umair! The verse will be fine. The doctors just want to keep him under observation for a day or two and then discharge him, ”said Shah Mir, keeping his tone as normal as possible.

"I don't even know who is responsible for his condition. What happened between him and Shahzad was that Ayat reached the hospital and Shahzad did not return to the news. Shah Mir looked at Umair in surprise. It was really remarkable that if Shahzad is not with the verse then where is he?

"We will see all that later, Umair. Now take Bijan home. You too are fresh, come till evening, ”he who was not ready to move from there stared at Shah Mir sitting on the bench with satisfaction.

"Go man!", Shah Mir said ignoring his stares.*****


Today was his first day at Mrs. Anjum's house. They had three children. She had two sons, Uhud and Hanzala, and a daughter, Umm Hani. Uhud and Hanzala were in seventh grade while Umm Hani was in sixth grade. All three children were very naughty but very good at reading and that was the problem for them. Mrs. Anjum did not want her studies to be affected in any way, but whenever she had a tutor for her, she would disturb her with her questions and new experiences. Watching videos from YouTube and doing practical experiments was his only hobby. Uhud's favorite subject was science and his pockets were always full of different things for his scientific experiments. Whether it was a matchbox, rubber bands, small batteries, seals or punch keys, and blue-yellow-red wires, everything was stuck in his pockets all the time and everything came out of his pocket when needed. ۔

 Umm Hani's favorite subject was history and she was particularly interested in learning about the warriors and their living conditions. He also had a special fondness for martial arts. While Hanzala was a child of today's age whose entire attention was focused on the computer to tablet and tablet to mobile. He knew about every company's latest models of phones, laptops, computers, Windows, and software. In such cases, the life of the tutor who did not like them would come to torment. Mrs. Anjum was disturbed by the change of tutors every fortnight.

The girl who taught him before Maria was a victim of Uhud's scientific experiment. That is why Mrs. Anjum, after telling Nada that Martha was in dire need of money, had charged a fee in excess of her demand and had also given her some money in advance. Seeing the happiness on Maria's face, she was sad for a moment that she wished she had told him about the deeds of her Plato children before but she did not want to disturb him now.

💔*****💔

By no means did J. John leave the verse alone. Umair and Shah Mir barely persuaded him, saying that Sahar must be alone in the house. As soon as he thought of Sahar, he was worried about it.

"Jan, you and Umair go home. I will be here till evening. Whatever the test of the verse will be and as soon as he comes to his senses, I will tell Umair on the phone, ”Shah Mir had assured him. He kissed Shah Mir on the forehead. He loved them as much as his own children.

Shah Mir called his PA and canceled today's meeting and sat down in the waiting room. He was also tired, so he sat for a while and closed his eyes. He was disturbed by the verse and Shahzad's disappearance was worrying him. He knew that it would be difficult to keep Umair for long. He must be looking for Shahzad at the moment. On the other hand, the ever-deteriorating nature of the verse from which Umayr was still alive. He rubbed his forehead and slowly opened his eyes. Before he could think any further, he saw Suleiman Shah coming. He took a deep breath. He was relieved by their arrival. He smiled softly. Go ahead and meet warmly. He was also meeting them after five or six days.

Soon he was sitting in the doctor's cabin. After knowing all the details, Suleiman Shah looked at Shah Mir anxiously.

"Does Wajiha know all this?"

"No, Dad! Bijan and Umair don't know anything. There is blood on Umair's head and we cannot take the risk of telling Bijan because of his nature. I am trying to find Shahzad on my own, ”Shah Mir came out and told him the details. He nodded. They agreed with Shah Mir. Wajiha was a heart patient. They will never be able to endure all this.

The verse was like their daughters, but from childhood, they considered her and Sahar as daughters. He had long wished that Ayat should be married to Shah Mir. He should bring his daughter as a daughter-in-law but Ayat liked Shahzad so he suppressed his wish in his heart. Then he said that if I had already asked for the verse from Wajiha, my daughter would not have been in this situation.

💔*****💔

Maria Fareeha had said goodbye to Begum but her breath was stuck in the sound of her footsteps. She remembered the day when she came crying from Seth Babar's room and cried and told him never to go there. When Fareeha Begum shook her head and asked her if she would not work then how would Zahi be treated, how would the house be run? So she ran with all her might and said, "I will work for my mother, I will earn some money." I will also treat Zahi, but not in return for my honor, ”he said, adding that he had been tired for years. His four words had pushed Fareeha Begum into a blind alley. He had looked at her face carefully and felt helpless and cruel as he had put all the burden on this innocent girl.

"Did I leave my own daughter to be bitten by these cruel wolves?" She shook her head in denial and cried helplessly.

Zahi's illness had forced him to look away from Martha's pain but today he looked at his daughter carefully. His seventeen-year Martha was made wise by the circumstances ahead of time. At this age, girls sit among friends in colleges and universities and tell stories of engagement. Permanent She plans, dreams of becoming something, but at that age, Ladli was worried about protecting her honor. There were tears in my eyes.

Even his height was like that. She went to her father in good spirits. The wheatish complexion, thick, dark hair, and large brown eyes silenced onlookers for a few moments. Circumstances had robbed him of his childhood and as soon as he stepped out of the house, the four sitting vultures were after his youth. She too was forced to leave the sick Zahi alone and not come with him to protect Martha. Fareeha Begum was upset. Martha's words were not wrong either. The girl was a caste that could recognize the good and the bad looking at her.

Fareeha Begum stayed at home and started sewing. Now she would not let Martha go to anyone's house to work. Martha used to bring order of clothes from the neighborhood and deliver it to the houses after sewing. Now, this was her responsibility. Thus a little bit of living was beginning. Martha wanted him to study further. He started tutoring the children of the neighborhood and took private exams of iCom and then took admission in the college. She was working B and at the same time teaching in an academy. His confidence was largely restored. The ups and downs of the times were beginning to be understood. Now he had to cover not only the house expenses and his tuition fees but also the money for Zahi's operation. In the realm of his dreams, desires were few and necessities were many.

Fareeha Begum could not sew continuously due to poor eyesight and Martha also wanted him to rest now and hand over the rest of the responsibility to her. With great difficulty, he found a suitable job at Mrs. Anjum's house. She was quite optimistic. This was the second house after Seth Babar's house where she was going to work but she was lucky that Mrs. Anjum lived alone. She was satisfied with the job. She also talked in a nearby bakery. She used to make cupcakes and donuts with Fareeha Begum at home in the morning and put them in the bakery and take money from them every week. Not only sound education but his alertness and dedication too are most required.


💔*****💔

to be continued...


--Turkish Language--


Aşkın satranç tahtasında


Bölüm 2


Doktor ona uyuşukluğa neden olan sakinleştiriciler vermişti ama dilinden sürekli Şehzad'ın adı geçiyordu. Altı yıldır dilinde olan isim. Birkaç saat içinde yabancı olmuştu, ama nasıl yabancı olabilirdi? O, benden nasıl ayrılabilir. Gözlerinin kenarları ıslaktı. Zihin aynı kelimeyi defalarca tekrarlıyordu. Bu "boşanma" kelimesinin tekrarı, onu yarı uykulu bir halde bile başının üstüne yatmaya zorladı. Gelgiti tersine çevirmek ne büyük bir hileydi. İki kalıp ve bir ruh olanlar, bugün iki kıyı şeridiydi.

 Umair çaresizce ona baktı ve dışarı çıktı. Sevgili Ladli ablasını bu halde görmek onun için güzel bir ruhtu. Sanki biri vücudunu keskin bir aletle keskinleştiriyordu. On iki yaşında bir adam haline geldiği cam kapının karşısındaki huzursuz yaratığı ıslak gözlerle gördü. Ayat'ı üniversiteye kabul için götürürken, Baba Jan'ın ölümünden sonra her şeyi kendisinin halledeceğini anladı. O gün ve bugün hiçbir görevinden geri adım atmadı. Baba Jan'a verilen son sözü bugün bile yerine getiriyordu. Kız kardeşlerinin ve annesinin mutluluğu onun için her şeyden önemliydi.

Hayatı yüzünden hala sessizdi, ama artık dayanamadı. Ayette geçen her gözyaşından Şehzad'ı sorumlu tutmak zorundaydı. Koridorda yürüyor, yumruklarını öfkeyle sıkıyordu. Kız kardeşinin bu duruma gelmesine neden olan Şehzad'ı öldürmeye dayanamadı. Sadece alay konusu değildi, her zaman hazır ve günceldi. İnsanları nasıl ağlatacağını biliyordu. Sadece üç gün içinde, yıllarca hasta görünmeye başladı. Shahzad Saeed'in yaptığı her istismarın hesabını vermesi gerektiğine karar verildi.

Doktora ayetin rivayetlerini soracaktı, Şah Mir'in geldiğini görünce kaçtı ve göğsünden kaçtı.

"zengin! Ayete ne oldu? ”diye sordu göğsünü sıkarak. Karaçi'ye yeni gelmişti. Saldırı için son beş veya altı gündür İslamabad'daydı. Geceleri ayeti Umair'den öğrendi ve sabahın ilk uçuşuyla Karaçi'ye ulaştı. Bu durumda Umair ve Bijan'ı yalnız bırakamazdı. Kız kardeşlerine karşı ne kadar hassas olduğunu biliyordu ve böyle sert adımlar atmaktan çekinmeyecekti. En ufak bir acıyla hayatı kısa kesildi. Ayat ve Sahar onun için kardeşten farksızdı. Bilinci yerine geldiğinden beri bu onun ailesiydi.

 Şah Mir'i tüm durum hakkında bilgilendirdi. Shah Mir ona endişeyle baktı ve cesaretlendirilmesini istedi. Doktoru bizzat görmeye gitti ama doktor cesaret verici bir şey söylemedi. Ayetin kan basıncının, sürekli stres nedeniyle beyin damarının yırtılmasına neden olabilecek çok yüksek olduğunu söyledi. Bilinci yerine gelir gelmez çığlık atmaya başlar.Ayrıca iyi bir psikoloğa ihtiyacı vardır yoksa akli dengesi bozulabilir. Önemli bir kaç test daha yaptı.Raporlar gelir gelmez size detayları bildireceğiz. Shah Mir'in kaygısı artmıştı. Bunları şu anda Umair'e söyleyemezdi. Babası Süleyman Şah'ı arayarak durumu ona bildirdi ve arkadaşı ve psikolog Sajjad Hashmi ile iletişime geçmesini istedi.

Süleyman Şah ve Bijan (Wajiha Begum) kuzendi. Wajiha, Begüm Süleyman Şah'ın kuzeniydi. Ebeveynler bir kazada öldü. Süleyman Şah ve ailesi, yetiştirilmeleri ve evlenmeleri için tam sorumluluk aldılar. Wajiha Begum, Süleyman Şah'ın sadece uzun zamandır arkadaşı değil aynı zamanda iş ortağı olan Süleyman Şah'ın en yakın arkadaşı Farid Hussain ile evliydi. Birlikte küçük bir hazır giyim fabrikası kurdular ve Shah Farid Sons'u kurmak için gece gündüz çalıştılar. İki aile başından beri çok yakındı. Süleyman Şah ve Farid Hussain çocuklar arasında hiçbir zaman ayrım yapmadılar, bu yüzden bugün iki aile arasında ideal bir aşk vardı.

Şah Mir Şah, Süleyman Şah ve İram Bibi'nin tek çocuğuydu. İrm Bibi, kanserden muzdarip olduktan birkaç yıl önce vefat etti. Wajiha Begum ve Farid Hussain'in üç çocukları oldu. En büyük ayet Farid, sonra Umair ve en küçük Sahar Farid'dir. Ayat Umair ve Shah Mir ikisinden de yaşlıydı, bu yüzden ikisi için de ürkütücüydü ve ikisine de çok yakındı. Onu bu halde görmek ikisi için de kolay değildi.

Dışarı çıkar çıkmaz Umair ona doğru geldi.

Shah Mir Doktor ne dedi? Ayet güzel olacak değil mi?”

Evet, Umay! Ayet güzel olacak. Doktorlar sadece onu bir iki gün gözlem altında tutmak ve sonra taburcu etmek istiyor ”dedi Shah Mir, ses tonunu olabildiğince normal tutarak.

"Durumundan kimin sorumlu olduğunu bile bilmiyorum. Onunla Şehzad arasında yaşananlar, Ayat hastaneye ulaştı ve Şehzad haberlere geri dönmedi. Shah Mir şaşkınlıkla Umair'e baktı. Gerçekten dikkat çekiciydi, eğer Şehzad ayetle birlikte değilse, o zaman nerede?

"Bütün bunları sonra göreceğiz Umair. Şimdi Bijan'ı eve götür. Sen de tazesin, akşam gel.” Oradan taşınmaya hazır olmayan, bankta oturan Şah Mir'e memnuniyetle baktı.

"Git dostum!" dedi Shah Mir, onun bakışlarını görmezden gelerek. *****


Bugün Bayan Anjum'un evindeki ilk günüydü. Üç çocukları oldu. Uhud ve Hanzala adında iki oğlu ve Ümmü Hani adında bir kızı vardı. Uhud ve Hanzala yedinci, Ümmü Hani ise altıncı sınıfta idi. Üç çocuk da çok yaramazdı ama okumada çok iyiydiler ve onlar için sorun buydu. Bayan Anjum, çalışmalarının hiçbir şekilde etkilenmesini istemiyordu ama ne zaman bir hocası olsa, soruları ve yeni deneyimleriyle onu rahatsız ederdi. YouTube'dan videolar izlemek ve pratik deneyler yapmak onun tek hobisiydi. Uhud'un en sevdiği ders bilimdi ve cepleri her zaman bilimsel deneyleri için farklı şeylerle doluydu. Kibrit kutusu, lastik bantlar, küçük piller, mühürler veya zımba anahtarları ve mavi-sarı-kırmızı teller olsun, her şey her zaman cebine sıkıştı ve gerektiğinde her şey cebinden çıktı.

 Ümmü Hani'nin en sevdiği ders tarihti ve özellikle savaşçıları ve yaşam koşullarını öğrenmekle ilgilendi. Ayrıca dövüş sanatlarına karşı özel bir ilgisi vardı. Hanzala, tüm dikkati bilgisayardan tablete ve tabletten cep telefonuna odaklanmış günümüzün bir çocuğu iken. Her şirketin en yeni telefon, dizüstü bilgisayar, bilgisayar, Windows ve yazılım modellerini biliyordu. Böyle durumlarda onları sevmeyen hocanın canı azap çekerdi. Bayan Anjum, öğretmenlerinin iki haftada bir değişmesinden rahatsız oluyordu.

Marha'dan önce ona ders veren kız, Uhud'un bilimsel deneyinin kurbanı olmuştur. Bu nedenle Bayan Anjum, Nada'ya Marha'nın çok paraya ihtiyacı olduğunu söyledikten sonra, talebini aşan bir ücret talep etmiş ve ayrıca ona önceden bir miktar para vermişti. Marha'nın yüzündeki mutluluğu görünce, ona Platon çocuklarının yaptıklarını daha önce anlatmış olmayı dilemiş ama şimdi onu rahatsız etmek istemediği için bir an üzüldü.

💔*****💔

J. John hiçbir şekilde ayeti yalnız bırakmadı. Umair ve Shah Mir, Sahar'ın evde yalnız olması gerektiğini söyleyerek onu zar zor ikna ettiler. Sahar'ı düşünür düşünmez, onun için endişelendi.

"Jan, sen ve Umair eve gidin. Akşama kadar burada olacağım. Ayetin imtihanı ne olursa olsun ve aklı başına gelir gelmez Umair'e telefonda söyleyeceğim” dedi. Shah Mir'i alnından öptü. Onları kendi çocukları kadar severdi.

Shah Mir, PA'sını aradı ve bugünkü toplantıyı iptal etti ve bekleme odasına oturdu. O da yorgundu, bu yüzden bir süre oturdu ve gözlerini kapadı. Ayette rahatsız olmuştu ve Şehzad'ın ortadan kaybolması onu endişelendiriyordu. Umair'i uzun süre tutmanın zor olacağını biliyordu. Şu anda Shahzad'ı arıyor olmalı. Öte yandan, Umeyr'in hayatta olduğu ayetin sürekli bozulan doğası. Alnını ovuşturdu ve yavaşça gözlerini açtı. Daha fazla düşünemeden Süleyman Şah'ın geldiğini gördü. Derin bir nefes aldı. Onların gelişiyle rahatladı. Yumuşak bir şekilde gülümsedi. Devam edin ve sıcak bir şekilde tanışın. Beş altı gün sonra da onlarla buluşacaktı.

Yakında doktorun kabininde oturuyordu. Süleyman Şah, tüm detayları öğrendikten sonra endişeyle Şah Mir'e baktı.

"Wajiha tüm bunları biliyor mu?"

"Hayır baba! Bijan ve Umair hiçbir şey bilmiyor. Umair'in kafasında kan var ve doğası gereği Bijan'a söyleme riskini alamıyoruz. Şahzad'ı kendim bulmaya çalışıyorum” dedi. Onayladı. Şah Mir ile anlaştılar. Wajiha bir kalp hastasıydı. Bütün bunlara asla dayanamayacaklar.

Ayet kızları gibiydi, ama çocukluktan itibaren onu ve Sahar'ı kızları olarak gördüler. Uzun zamandır Ayat'ın Şah Mir ile evlenmesini diliyordu, kızını gelin olarak getirmeliydi ama Ayat Şehzad'ı sevdiği için bu isteğini kalbinde bastırdı. Wajiha, kızım bu durumda olmazdı.

💔*****💔

Marha Fareeha, Begüm'e veda etmişti ama nefesi ayak seslerine takılıp kalmıştı. Seth Babar'ın odasından ağlayarak geldiği günü hatırladı ve ağladı ve ona asla oraya gitmemesini söyledi. Fareeha Begüm başını sallayıp çalışıp çalışmayacağını sorunca Zahi'ye nasıl davranılır, ev nasıl işletilirdi. Bu yüzden tüm gücüyle koştu ve "Annem için çalışacağım, biraz para kazanacağım" dedi. Zahi'yi de tedavi edeceğim ama namusum karşılığında değil” dedi. Dört sözü Fareeha Begum'u çıkmaz bir sokağa itmişti. Yüzüne dikkatlice bakmış ve tüm yükü bu masum kıza yüklediği için kendini çaresiz ve zalim hissetmişti.

"Kendi kızımı bu zalim kurtlar tarafından ısırılmak için mi bıraktım?" Başını inkar edercesine salladı ve çaresizce ağladı.

Zahi'nin hastalığı onu Marha'nın acısından uzaklaşmaya zorlamıştı ama bugün kızına dikkatle baktı. Vaktinden önce koşullar tarafından akıllıca yapılmış on yedi yıllık marhası. Bu yaşta kızlar kolejlerde ve üniversitelerde arkadaşlarının arasında oturur ve nişan hikayeleri anlatırlar. Kalıcı Bir şey olmayı planlıyor, hayal ediyor ama o yaşta Ladli namusunu korumaktan endişe ediyordu. Gözlerimde yaşlar vardı.

Boyu bile böyleydi. İyi bir ruh hali içinde babasının yanına gitti. Buğday teni, kalın, siyah saçlar ve iri kahverengi gözler, izleyenleri birkaç dakikalığına susturdu. Koşullar onun çocukluğunu çalmıştı ve evden çıkar çıkmaz oturan dört akbaba gençliğinin peşindeydi. O da hasta Zahi'yi yalnız bırakmaya ve Marha'yı korumak için onunla gelmemeye zorlandı. Fareeha Begüm üzüldü. Marha'nın sözleri de yanlış değildi. Kız, kendisine bakan iyiyi ve kötüyü ayırt edebilen bir kasttı.

Fareeha Begüm evde kalıp dikiş dikmeye başladı, artık Marha'nın kimsenin evine çalışmasına izin vermiyordu. Marha mahalleden kıyafet siparişi getirir, diktikten sonra evlere teslim ederdi, şimdi bu onun sorumluluğuydu. Biraz angarya oldu. Marha onun daha fazla çalışmasını istedi. Mahallenin çocuklarına ders vermeye başladı ve iCom'un özel sınavlarına girdi ve ardından koleje girdi. B'de çalışıyordu ve aynı zamanda bir akademide öğretmenlik yapıyordu. Kendine olan güveni büyük ölçüde geri geldi. Zamanın inişleri ve çıkışları anlaşılmaya başlandı. Artık sadece ev masraflarını ve okul ücretlerini değil, aynı zamanda Zahi'nin ameliyatı için gereken parayı da karşılaması gerekiyordu. Rüyasında arzular az, ihtiyaçlar çoktu.

Fareeha Begüm, görme yetersizliğinden dolayı sürekli dikiş dikemiyor ve Marha da şimdi onun dinlenmesini ve geri kalan sorumluluğu kendisine devretmesini istedi. Büyük zorluklarla Bayan Anjum'un evinde uygun bir iş buldu. Oldukça iyimserdi. Bu, Seth Babar'ın çalışacağı evinden sonraki ikinci evdi ama Bayan Anjum yalnız yaşadığı için şanslıydı. İşten memnundu. Ayrıca yakınlardaki bir fırında da sohbet ederdi, Fareeha Begüm ile sabahları evde kek ve donut yapar, onları fırına koyar ve her hafta onlardan para alırdı. Sadece sağlam eğitim değil, aynı zamanda uyanıklığı ve bağlılığı da en çok gereklidir.


💔*****💔

devam deck...



Comments

  1. It's nice working with you, thanks for your all support. Median UI 1.5 Blogger Template

    ReplyDelete
  2. Fruit Name आज कल बाजारो मे इतने प्रकार के फल उपलब्ध है की अधिकतर का नाम ही हम लोगो को नहीं पता होता है

    ReplyDelete
  3. Fareeha Begüm, görme yetersizliğinden dolayı sürekli dikiş dikemiyor ve Marha da şimdi onun dinlenmesini ve geri kalan sorumluluğu kendisine devretmesini istedi. Büyük zorluklarla Bayan Anjum'un evinde uygun bir iş buldu. Oldukça iyimserdi. Bu, Seth Babar'ın çalışacağı evinden sonraki ikinci evdi ama Bayan Anjum yalnız yaşadığı için şanslıydı. İşten memnundu. Ayrıca yakınlardaki bir fırında da sohbet ederdi, Fareeha Begüm ile sabahları evde kek ve donut yapar, onları fırına koyar ve her hafta onlardan para alırdı. Sadece sağlam eğitim değil, aynı zamanda uyanıklığı ve bağlılığı da en çok gereklidir.
    Best lines
    punjabilyrics

    ReplyDelete
  4. Wow! nice article thanks for a informative article. I would surely share this information with my friends.
    https://www.funnhub.xyz/

    ReplyDelete
  5. t's nice working with you, thanks for your all support. < a href="https://www.funnhub.xyz/" best funny video

    ReplyDelete
  6. Nice content in Urdu http://www.lhodb.com/

    ReplyDelete

Post a Comment

Popular posts from this blog

35+New Sad Poetry| Old sad poetry | 20+new latest love poetry 2022|

25+ Best Attitude Shayari 2022| Attitude Shayari For Status| Whatsapp Shayari| love story moviesd,

25+New sad Poetry| 30+new eid Poetry| new latest poetry 2022 | 50+ new latest poetry 2022| old ghuzals| 20+new whats app stats 2022|