New Novels | Stories | 270+New Latest Novels in Urdu/Hindi

 محبت کی بساط پر

قسط نمبر 3



آیت کو ہوش آیا تو کمرہ خالی تھا۔ اس کے ساتھ نرس تھی جو اس کا بی پی اور دوائیں وغیرہ چیک کر رہی تھی۔ سہہ پہر کا وقت تھا۔ شاہ میر باہر انتظار گاہ میں بیٹھا کال پر اپنے پی اے کے ساتھ اپنی میٹنگز ری شیڈول کر رہا تھا۔ نرس نے اسے اٹھ کر بیٹھنے میں مدد دی۔ وہ اب بہتر محسوس کر رہی تھی۔ بی پی بھی کافی حد تک بہتر تھا۔ سوچوں کا محور ایک بار پھر شہزاد کی ذات تھی۔ اچانک اس کی زندگی میں کسی لڑکی کا آنا اور اس کی جگہ لے لینا کیا آیت فرید اتنی ہی بے مول تھی۔ آنکھوں سے آنسو لڑی کی صورت بہہ رہے تھے۔ ڈاکٹر نے ضروری چیک اپ کے بعد اسے ڈسچارج کردیا تھا لیکن شاہ میر کو تاکید کی تھی کہ وہ اسے کسی ماہر نفسیات کو ضرور دکھائے۔ اس وقت اسے ایک اچھے دوست اور سائیکاٹرسٹ کی اشد ضرورت تھی۔ 

آیت بی جان اور عمیر کے ساتھ گھر آچکی تھی لیکن یہ گھر، یہ تو اس کا گھر نہیں تھا۔ اس کا گھر تو وہ تھا جسے اس نے چاہت اور مان سے بنایا تھا۔ محبت سے سینچا تھا اور وہ اسی گھر سے بے دخل کردی گئی تھی۔ وہ بظاہر نارمل تھی لیکن اندر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی۔ چار سال کسی فلم کی طرح اس کی نظروں کے سامنے چل رہے تھے۔ کتنی آسانی سے اس کی وفا اس کی محبت کو اس ناقدرے شخص نے مٹی کردیا تھا۔ اپنے گھر کے دروازے اس پر بند کردیے تھے۔ 

بی جان اور عمیر نے اسے بتایا تھا کہ وہ اسے اپنے ساتھ لے جائیں گے اور اس نے خاموشی سے ان کی بات مان لی تھی۔ جانتی تھی کہ اب اسے لوٹ کر وہیں آنا ہے۔ اس کی متاع اس سے چھین لی گئی تھی۔ اب وہ تہی دامن تھی، ٹھکانہ بدل بھی جاتا تو کیا فرق پڑتا تھا۔ 

 عمیر چاہتا تھا کہ وہ اس رات کے حوالے سے آیت سے بات کرے،شہزاد کے بارے میں پوچھے لیکن شاہ میر نے اسے منع کرتے ہوئے شہزاد کو تلاش کرنے اور اس کے گھروالوں سے رابطہ کرنے کو کہا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ آیت کے زخم پھر سے کریدے جائیں۔ 

شاہ میر ابھی گھر آیا تھا۔ گاڑی کی چابیاں اور فون میز پر رکھتے ہوئے اس نے سلیمان شاہ کو کسی گہری سوچ میں گم پایا۔ 

”بابا جان! خیریت ہے؟ پریشان لگ رہے ہیں؟“

”بیٹا میں آیت کی وجہ سے پریشان ہوں، کاش! کہ میں نے دیر نہ کی ہوتی اور وجیہہ سے آیت کو تمہارے لیے مانگ لیا ہوتا تو آج اس بچی کے ساتھ یہ سب نہ ہوتا“۔ شاہ میر نے سٹپٹا کر انہیں دیکھا۔ آج سے قبل انہوں نے ایسی کسی خواہش کا اظہار اس کے سامنے نہیں کیا تھا۔ 

”یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ بابا آیت میری بہنوں جیسی ہے اور وہ مجھ سے بڑی بھی تو ہے“، شاہ میر نے بے تکا سا جواز تراشا۔ سلیمان شاہ نے اسے فقط گھورنے پر اکتفا کیا تھا اور شاہ میر نے ان کے سامنے سے غائب ہوجانے کو ترجیح دی تھی لیکن وہ نہیں جانتا تھا کہ یہ بات یہاں ختم نہیں ہوئی تھی بلکہ اس کی زندگی کے ٹھہرے پانی میں ہلچل مچا دے نے والی تھی۔ 

                        *****

مرحا کو دو دن ہوئے تھے ان بچوں کو پڑھاتے ہوئے اور اس نے ان سے دوستی کرلی تھی اور یہی دوستی اسے بھاری پڑی تھی لیکن بچوں کی معصومانہ باتیں اسے اچھی لگ رہی تھیں۔ وہ نہیں جانتی تھی یہ کیوٹنس صرف شروع کے چند دن محدود رہنے والی تھی۔ وہ گھر آئی تو امی کچن میں تھیں اور ضحی سو رہی تھی۔ وہ باہر صحن میں تخت پر بیٹھے  مسلسل دونوں ہاتھوں سے اپنا سر دبا رہی تھی جب امی اس کے لیے چائے لے کر آئیں۔ 

”امی آپ رہنے دیتیں میں بنا لیتی“۔ 

”بیٹا تم صبح شام کام میں لگی رہتی ہو، گھر آکر بس آرام کیا کرو“، اس نے مسکرا کر ماں کو دیکھا اور بیگ میں سے ایک چھوٹا سا فون نکال کر انہیں دیا۔ 

”مسز انجم نے ایڈوانس فیس دی تھی، اس میں سے لیا ہے۔ آپ کے پاس بھی فون ہونا چاہیے ضرورت کے وقت رابطے کے لیے“، اسے ان کی ہر چھوٹی سے چھوٹی چیز کا احساس تھا۔ انہوں نے محبت پاش نظروں سے اپنی بیٹی کو دیکھا جس نے انہیں کبھی بیٹے کی کمی محسوس نہیں ہونے دی تھی۔ حالات چاہے کیسے بھی ہوں انہیں مرحا کا پرسکون چہرہ دیکھ کر تسلی ہوجاتی تھی۔ 

مرحا شروع سے ہی اپنی عمر کی لڑکیوں سے مختلف تھی لیکن انہوں نے کبھی اس کی زبان پر شکوے شکایت نہیں دیکھے تھے۔ وہ کبھی تھک ہار کر نہیں بیٹھی تھی۔ وہ محنت کے ذریعے راستے بنانے پر یقین رکھتی تھی۔ خوب صورت سی مسکان تھی جو اس کے لبوں سے کبھی جدا نہیں ہوتی تھی۔ وہ اپنے رب پر یقین رکھتی تھی جو اندھیروں میں اس کے لیے ہمیشہ امید کی کرن جلا دیا کرتا تھا۔ 

”امی میں نے ڈاکٹر شاہد سے بات کی ہے ضحی کے آپریشن کی۔ انہوں نے مجھے امید دلائی ہے کہ ضحی ٹھیک ہوجائے گی“۔ انہوں نے کمرے میں سوتی ضحی پر نظر ڈال کر سکون بھری سانس خارج کی۔ ان کی یہ دو بیٹیاں ہی ان کی کل کائنات تھیں جنہیں دیکھ کر وہ جیتی تھیں۔ 

”مرحا بیٹا میں چاہتی ہوں کہ تمہارے فرض سے سبکدوش ہوجاؤں“، امی کی اس غیر متعلقہ بات پر اس نے حیرانی سے انہیں دیکھا۔ 

”ایسے نہ دیکھو میں بھی باقی ماؤں جیسی ایک ماں ہوں جسے ہر حال میں بیٹی کا فرض ادا کرنا ہے۔ تمہیں کیا لگتا ہے کہ اگر تم اس گھر کی واحد کفیل ہو تو ساری زندگی یونہی محنت کرتی رہوگی ہمارے لیے؟“

”امی آپ واقعی باقی ساری ماؤں جیسی ہیں۔ فرصت کے لمحات میسر آئے نہیں کہ بیٹی کو بیاہنے کی فکر لاحق ہوگئی۔ میں یہاں ضحی کی بات کر رہی ہوں اور آپ الگ ہی فکروں میں ہیں“۔ 

”تم اولاد کبھی ماں باپ کی فکر سمجھ ہی نہیں سکتے بیٹا“، وہ اپنی ماں کی جذباتی باتوں پر مسکرا دی۔ جانتی تھی کہ وہ اس کے لیے فکر مند رہتی ہیں لیکن اسے ابھی اپنوں کی فکر کرنی تھی اور شادی فی الحال اس کی ترجیحات میں شامل نہیں تھی۔ 

                              *****

عمیر گھر آیا تو معمول سے ہٹ کر چہل پہل کا احساس ہوا۔ سحر کو کچن سے نکلتا دیکھ اسے جالیا۔ 

”کون آیا ہے؟“ 

”آپی کی نند اور آپ کی ساس اور منگیتر صاحبہ“۔ 

”لاحول ولا قوۃ ایک بی جان کافی نہیں ہیں سحر جو تم بھی شروع ہوگئیں“۔ 

خالہ اور عروج بی جان کے ساتھ ڈرائنگ روم میں تھیں جب کہ آیت کی نند آیت کے کمرے میں اس کے ساتھ تھیں۔ عمیر خالہ جان کو سلام کرکے اور عروج کو مکمل نظر انداز کرتا ہوا آیت کے کمرے کی طرف بڑھا تاکہ وہ شہزاد کی بہن سے اس کے بارے میں پوچھ سکے۔ عروج کو یوں اپنا نظر انداز کیے جانا بہت کھلا تھا۔ نہ جانے کیوں عمیر اس سے دور بھاگتا تھا۔ 

”لیکن آیت ہماری کوئی خالہ کی بیٹی لاہور میں نہیں رہتی۔ نہ ہی امی یا کسی اور نے شہزاد کو کبھی دوسری شادی کے لیے اکسایا ہے“، وہ ٹھٹھک کر رکا تھا۔ 

”آپی وہ لڑکی ہاں یمنی شہزاد نے اس کا نام یمنی بتایا تھا وہ اس رات اس کے ساتھ میرے گھر آئی تھی۔ اسی کے کہنے پر شہزاد نے مجھے طلاق دی ہے اور یہی نہیں دھوکے سے بوتیک بھی اپنے نام کروالیا مجھ سے دونوں نے۔ شہزاد نے مجھ سے چند دن قبل ہی کچھ پیپرز سائن کروائے تھے یہ کہہ کر کہ وہ نئی شاخ کے لیے ایک جگہ دیکھ رہے ہیں اور میں میری آنکھوں پر تو محبت نامی دھوکے کی پٹی بندھی تھی۔“، عمیر نے غصے مٹھیاں بھینچی تھیں اتنا سب کچھ ہوگیا تھا اور وہ لاعلم رہا تھا۔ 

”یہ یمنی نامی لڑکی کون ہے آیت میں نہیں جانتی۔ یقین کرو ہم میں سے کسی کو شہزاد کی اس حرکت کا علم نہیں ہے۔ تم بے فکر رہو میں تمہارے ساتھ ہوں“، ان کے لہجے سے پشیمانی عیاں تھی۔ 

”جس نے عمر بھر ساتھ نبھانے کا وعدہ کیا تھا جب اسی نے چھوڑ دیا تو“، اس کی بات ادھوری رہ گئی تھی۔ پلکوں سے آنسو ٹوٹ کر گرا تھا۔ 

”میں اسے کبھی معاف نہیں کروں گی۔ تم یہ مت سمجھنا کہ میں اس کی بہن ہوں صرف اور اس کی غلط حرکت پر اس کا ساتھ دوں گی۔ آج سے میں صرف تمہاری بہن ہوں۔ شہزاد نے تمہیں دھوکا دیا ہے آج کے بعد سے میرا اس سے ہر تعلق ختم“، انہوں نے آگے بڑھ کر اسے گلے لگایا تھا۔ 

وہ ریش ڈرائیونگ کرتا ہوا شہزاد اور آیت کے بوتیک فیشن وئیر پہنچا تھا اور اتفاق سے وہ باہر ہی اسے مل گیا تھا۔ عمیر گاڑی پارک کرکے سیدھا اس کی طرف آیا۔ اس سے قبل وہ کچھ کہتا یا سنبھلتا عمیر نے پے درپے تھپڑ اس کے منہ پر جڑ دیے تھے۔ بوتیک سے چند لوگ نکل کر اسے روکنے آئے لیکن وہ کسی کے قابو میں نہیں آرہا تھا۔ لاتوں اور گھونسوں سے تواضع کرتا وہ اسے کسی صورت چھوڑنے والا نہیں تھا۔ اس نے مار مار کر شہزاد کا برا حال کردیا تھا۔  جب کسی کے روکنے سے وہ نہ رکا تو ریسپیشن پر بیٹھی لڑکی نے پولیس کو فون کرکے مطلع کیا۔ 

اسے تھانے میں بیٹھے ہوئے آدھا گھنٹہ گزر چکا تھا۔ مزید انتظار اس کی برداشت سے باہر ہوتا جا رہا تھا اس سے قبل وہ مزید کسی سے الجھتا شاہ میر اسے وکیل کے ساتھ آتا دکھائی دیا۔ اس کی اس غیر ذمے دارانہ حرکت پر شاہ میر نے اسے غصے سے گھورا جسے وہ سر جھٹک کر نظر انداز کرگیا۔ اس کے خلاف یمنی نامی لڑکی نے اس کے شوہر پر تشدد کرنے کے خلاف ایف آئی آر کٹوائی تھی۔ ضروری کارروائی مکمل ہونے کے بعد وہ اسے لے کر باہر نکلا۔

”دل تو چاہ رہا ہے دو لگاؤں۔ کیا حرکت تھی یہ عمیر؟“۔ 

”تو اور کیا کرتا اس گھٹیا انسان کو یونہی جانے دیتا۔ اسے آیت کی زندگی برباد کرنے کا کوئی حق نہیں ہے“، وہ غصے سے بپھرا تھا۔ 

”ایسے جاہلوں کی طرح بیچ سڑک پر لڑنے سے اگر آیت کی زندگی سدھر سکتی ہے اور اس کی خوشیاں واپس آسکتی ہیں تو چلو دو چار میں بھی لگا آتا ہوں اسے“۔ 

”اس نے آیت کو طلاق دے دی ہے“، صرف وہی جانتا تھا کہ اپنی بہن کے لیے یہ لفظ سننا اور کہنا کس قدر تکلیف دہ ہے۔ شاہ میر کی آنکھوں میں بے یقینی تھی اور کیوں نہ ہوتی وہ یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ شہزاد آیت سے بے وفائی کرسکتا ہے یا اسے چھوڑ سکتا ہے۔ اسے عمیر کے اس قدر شدید رد عمل کی وجہ سمجھ آئی تھی۔ یہی نہیں اس کا بوتیک بھی ہتھیالیا ہے اس دھوکے باز شخص نے۔ میری بہن کی آنکھوں کا وہ خواب بھی چھین لیا جس کے سہارے وہ اب تک جیتی آئی تھی۔ 

شاہ میر کے پاس اسے تسلی دینے کے لیے الفاظ نہیں تھے۔ وہ اس کی اپنی بہنوں سے والہانہ محبت سے واقف تھا۔ اس وقت وہ جو بھی کرتا کم تھا لیکن پھر بھی وہ اسے کوئی بھی بے وقوفی کرکے میڈیا کو باتیں بنانے کا موقع فراہم نہین کر سکتا تھا۔ وہ جس فیلڈ سے تعلق رکھتے تھے ان کے لیے ایسے معاملات میں محتاط رہنا بے حد ضروری تھا ورنہ رائی کا پہاڑ بننے میں دیر نہیں لگتی تھی۔ 

”گھر چلتے ہیں، میں اپنے ہاتھ سے کافی بنا کر پلاؤں گا پھر وہ آج ایک ایڈورٹائزنگ ایجنسی بھی جانا ہے شام میں“، شاہ میر نے اس کے گلے میں ہاتھ ڈالا تھا۔ 

”دور رہو گرل فرینڈ نہیں ہوں میں تمہاری“، شاہ میر مسکرادیا تھا۔ 

”اوریہ تم نے ابھی تک اس لڑکی کا پیچھا چھوڑا نہیں ہے؟“ عمیر نے بھنویں اچکائی تھیں۔ 

”نہیں“، یک لفظی جواب آیا تھا۔ 

”ویسے تم اسے ایسی جگہوں پر ہی کیوں تلاش کر رہے ہو؟ ماڈلنگ ایجنسی یا ایڈورٹائزنگ ایجنسیز میں۔ کیا ہماری فیلڈ سے ہے؟“ عمیر نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے پوچھا تھا۔ 

”میں یہ بھی نہیں جانتا لیکن اس دن میں نے اسے ایک فیشن ایونٹ میں ہی دیکھا تھا۔ وہ کسی لڑکی کے ساتھ آئی تھی میں اس کے والی لڑکی کا چہرہ غور سے نہیں دیکھ پایا لیکن وہ دونوں ساتھ ہی تھیں۔ صرف اس کا چہرہ ہی یاد ہے اور اسی کے سہارے اسے تلاش کر رہا ہوں“، شاہ میر کے لہجے کی بے بسی وہ محسوس کرسکتا تھا۔ 

”مل جائے گی میں بھی ایک دو جگہ دیکھتا ہوں، مجھے معلوم ہوا تھا کہ کچھ لڑکیاں نئی ہائیر کی ہیں ایک دو ایجنسیز نے۔ امایہ سے بات کرتا ہوں وہ معلومات نکلوا دے گی“، اس نے اسے تسلی دی تھی۔ 

شاہ میر اب اسے آیت کے بارے میں بتا رہا تھا جو ڈاکٹرز نے اس سے کہا تھا۔  

”پھر وہ لڑکی کون ہے؟“

”میں نے پتا کروایا ہے وہ لڑکی جس سے اس نے شادی کی ہے بوتیک میں چند دن پہلے آئی ہے۔ وہ اس کی خالہ کی بیٹی نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ اس فراڈ میں شامل اس بوتیک کی ورکر ہے “۔ 

”تم فکر مت کرو ہم آیت کا بوتیک اس سے واپس لے کر رہیں گے“، شاہ میر نے کچھ سوچتے ہوئے کہا تھا۔ وہ ساری بات جاننے اور کسی حتمی فیصلے پر پہنچنے کے بعد عمیر کو مخاطب کیا۔ 

” دیکھو میں جانتا ہوں جو کچھ بھی آیت کے ساتھ ہوا وہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ شہزاد کم ظرف اور اس قدر گھٹیا نکلے گا یہ ہم میں سے کسی نے نہیں سوچا تھا لیکن ہم یوں سر عام تماشا نہیں لگا سکتے عمیر نہ اپنا اور نہ ہی آیت کا۔ سمجھ داری اسی میں ہے کہ جو ہوگیا ہم اسے قبول کرلیں اور آگے بڑھیں۔ آیت کو نارمل لائف میں واپس لانے کے لیے اس کے ارد گرد کے لوگوں کا نارمل ہونا ضروری ہے۔ اسے دھچکہ لگا ہے، وہ ٹراما میں ہے لیکن ہم ساری زندگی اسے یوں ر ہنے نہیں دے سکتے۔ اس کے لیے ہم سب کو اس کے سامنے نارمل ہونا پڑے گا۔ اسے اس ڈپریشن اور خود ترسی سے نکالنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم اسے احساس دلائیں کہ کسی کے چلے جانے سے زندگی کی گاڑی نہیں رکتی“، شاہ میر نے اسے سمجھانے کی کوشش کی تھی۔ 

دوسری جانب سلیمان شاہ بی جان کی زبانی ساری باتیں جاننے کے بعد کچھ سوچتے ہوئے فیصلہ کن لہجے میں بولے، ”وجیہہ بیگم میں چاہتا ہوں آیت بیٹی کی عدت ختم ہونے پر اس کا نکاح سادگی سے شاہ میر سے کردیا جائے“۔ 


                               *****

جاری ہے۔۔۔۔

Comments

  1. Hi i am Tamim and your Blog Is very good in all time Thanks so much.

    ReplyDelete
  2. Were Intent. We want to build excitement around your vision and accelerate the growth of your business. Get in touch to see how we can help you.b2b, lead generation , demand generation
    intentsourcer

    ReplyDelete
  3. Laptop Shop | Get visit MC Solution BD Branch in your nearest area in Dhaka. Mirpur 10 & Bashundhara City. You can order any laptop and desktop accessories from MC Solution BD website and receive the product from your home. We have home delivery option available for only customers inside Dhaka. So, if you live inside Dhaka and can’t go physically to our shop, inform them you need home delivery. And you will receive the product in time. So, whether you are looking for the best laptop shop in Bangladesh or you want to buy laptop or PC accessories online, MC Solution is recommended for you.

    ReplyDelete

Post a Comment

Popular posts from this blog

New Urdu Sad poetry | New English Poetry 2022 | New Love Poetry

Sad Poetry in Urdu 2 Lines - Two Line Shayari

Insurance company Health American